۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تراشیون

حوزہ/ خاندانی امور کے ماہر نے کہا: میاں بیوی کے درمیان مشترکہ ازدواجی زندگی کا معنی یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے سامنے والے کی اچھائیوں کو مدِنظر رکھا جائے۔ جب ہم گھر پہنچیں تو ہمیں گھر والوں سے منفی باتیں کہنے سے گریز کرنا چاہئے، اپنی بات چیت میں کسی کی غیبت نہیں کرنی چاہئے، ایک دوسرے کے خاندان کے بارے میں برا بھلا نہیں کہنا چاہئے اور کبھی بھی ایک دوسرے کی توہین نہیں کرنی چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین سید علی رضا تراشیون نے ہفتہ کی شب حرمِ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں اپنے خطاب کے دوران کہا: اہم ترین انسانی ڈھانچے اور اس کی اجتماعی شکل میں سے ایک خانوادہ کی تشکیل ہے کیونکہ خانوادہ و خاندان انسان کے معنوی کمالات میں بہتری اور دنیا و آخرت دونوں کی دستیابی کی علامت ہے۔ اگر ہم ایک مربوط اور ماڈل اسلامی خانوادہ کو تشکیل دے سکیں تو یہ انسانی سعادت کی چابی ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: روایات میں آیا ہے کہ "جس نے شادی کی اس نے اپنا آدھا دین حاصل کر لیا"۔ تو اگر کوئی خاندان اپنے حقیقی مقام تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے اہل بیت علیہم السلام کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہو گا اور اہل بیت علیہم السلام کی روایتوں اور فرمودات کے مطابق اسے خاندان کی تشکیل دینا ہو گی۔

حجۃ الاسلام و المسلمین تراشیون نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج بدقسمتی سے خاندان کی تشکیل کا ہمارا معیار ہوا و حوس پر مبنی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی خاندان اگر ہوا و حوس پر مبنی خواہشات کی بنیاد پر آگے بڑھے گا تو نہ صرف وہ ترقی نہیں کر پائے گا بلکہ یہی چیز خاندان کی نشونما کے لیے سب سے بڑا بریک ثابت ہو گی۔

انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایک نمونہ خاندان کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک خانوادہ میں مرد و زن کے درمیان پہلی مشترک خصوصیت ان کا اچھا اخلاق ہے اور اسی وجہ سے احادیث میں "خوش اخلاقی" پر تاکید کی گئی ہے اور "بداخلاقی کا نتیجہ دوزخ کی آگ" کہا گیا ہے۔

خاندانی امور کے اس ماہر نے کہا: ایک کامیاب اور مضبوط انسان وہ ہے جو اپنی زندگی کو نیکی اور اچھائیوں کی بنیاد پر تشکیل دیتا ہے نہ کہ دوسروں کے طرز عمل پر۔ اگر مالک اشتر ایک عظیم شخصیت بنے تو اس کی وجہ ان کے بازو کی طاقت نہیں تھی بلکہ ان کا اچھا اخلاق تھا۔ ایک دفعہ جب راہ چلتے ہوئے ان کی توہین کی جاتی ہے تو وہ فوراً مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور توہین کرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: اچھے اخلاق اپنے آپ میں اچھے ہوتے ہیں اور ہمیں اچھے اخلاق کو دوسرے فریق کے رویے سے نہیں جوڑنا چاہئے۔

حجۃ الاسلام و المسلمین تراشیون نے خاندان کی نشونما کے لیے تجویز کردہ دوسری خصوصیت کو خاندان میں حسنِ معاشرت اور خوشگوار گھریلو ماحول قرار دیا اور کہا: خاندان کو اس وقت جن نقصانات سے خطرہ ہے ان میں سے ایک خاندان میں باہمی زبانی رابطے کا فقدان ہے چونکہ ایک کامیاب خاندان اسی وقت ایک کامیاب بن سکتا ہے کہ جب وہ مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ ایک ایسا خاندان جس میں پیار اور محبت نہ ہو تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے درمیان زبانی بات چیت کا کم ہونا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: خاندانوں میں زبانی رابطے کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو بدقسمتی سے سب سے پہلے منفی باتیں کہنا شروع ہو جاتے ہیں جب کہ روایات میں آیا ہے کہ "جب ایک مومن مرد گھر میں داخل ہو تو گویا اس گھر میں سرور و خوشی داخل ہوئی ہو اور وہ اپنے آنے سے گھر والوں کو خوش کرے"۔

حجۃ الاسلام والمسلمین تراشیون نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کہتا ہے کہ "میاں بیوی کو ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ ہونا چاہئے"، کہا: میاں بیوی کی ملاقات میں پہلے جملے انتہائی اہم ہوتے ہیں اس لیے شوہر اور بیوی کو چاہئے کہ شروعِ ملاقات میں ایک دوسرے سے حال احوال پوچھ کر ایک دوسرے کے سرور و تسلی کا باعث بنیں اور یہ چیز دونوں کے لیے ضروری ہے نہ کہ صرف بیوی یا شوہر کے لئے لہذا یہ تصور بہت غلط ہے کہ ہم کہیں کہ جب تک طرفِ مقابل میرا حال احوال نہیں پوچھتا تو میں بھی اس سے نرم خوئی سے پیش نہیں آؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ ازدواجی تعلقات میں دوسرے فریق کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی اچھائیوں اور نیکیوں کو دیکھے۔ حالانکہ بدقسمتی سے بسا اوقات ہم اس کے برعکس کرتے ہیں اور رات کو اس وقت تک نہیں سوتے جب تک کہ دوسرے فریق کو برا بھلا نہ کہہ لیں جبکہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر سے کہا "دوسرے کی اچھائیوں کو دیکھو تاکہ اچھائی میں اضافہ ہو"۔

خاندانی امور کے اس ماہر نے کہا: اپنی گفتگو میں سب سے پہلے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کی غیبت نہ کریں کیونکہ روایت میں آیا ہے کہ"اللہ نے گناہ میں کسی قسم کی خوبی نہیں رکھی ہے"۔ دوسرا ہمیں ایک دوسرے کی والدہ اور خاندان کے بارے میں برا بھلا نہیں کہنا چاہئے چونکہ اس بات کا یقین رکھیں کہ اگر ہم نے ساس وغیرہ کو برا بھلا کہا تو ہم طرفِ مقابل کی نظروں سے گر جائیں گے۔ تیسرا یہ کہ کبھی بھی ہمیں ایک دوسرے کی توہین نہیں کرنی چاہئے اور اگر ہم ان موارد کا لحاظ کریں گے تو ازدواجی تعلقات میں خیر و بھلائی کا دروازہ کھلے گا اور میاں بیوی ایک دوسرے کے سکون کا سبب بنیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .