تحریر : ظہور مہدی ، مسجد جامع ولئ عصر ، مہاجنگا ، مڈگاسکر ، افریقہ۔
حوزہ نیوز ایجنسی | الحمد للہ کہ خداوند متعال نے ھمیں اپنے لطف و کرم سے دین اسلام پر پیدا کیا ہے اور کفر و شرک کی ظلمتوں سے دور رکھ کر
ھمارے نفوس و قلوب کو اس مقدس دین کے نور سے منور فرمایا ھے۔
بلاشبہ یہ اس قدیم الاحسان پروردگار کا بہت بڑا احسان ہے جو اس نے ھمارے حق میں فرمایا ہے ، اب ھمارا فریضہ ہے کہ اس کے اس عظیم احسان کی قدر اس طرح کریں کہ اس کے باعظمت دین کو پہلے اچھی طرح سمجھیں اور اس کے بعد اس پر اچھی طرح عمل کریں ، یعنی پہلے ہم ایک اچھے دین فہم اور دین شناس بنیں تاکہ اس کے بعد ایک اچھے دیندار بن سکیں۔
چونکہ حق یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایک اچھا اور واقعی دیندار اس وقت تک نہیں بن سکتا ، جب تک وہ اچھا اور واقعی دین فہم اور دین شناس نہ ہو۔
افسوس کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت اس حقیقت سے غافل ہے ، لیکن اس روشنی و ترقی کے دور میں ہمیں خواب غفلت سے جاگنا چاہیئے اور باقاعدہ یہ تسلیم کرلینا چاہیئے کہ دین کو پہلے سمجھنا چاہیئے ، بعد میں برتنا چاہیئے ، چونکہ دین کو بغیر سمجھے برتنا بسا اوقات بہت مضر اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے بہت سے فتنے جنم لے سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ فتنہ سقیفہ ہو یا فتنہ خوارج ، یہ اسی سطحی و ظاھری دینداری کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں جو دینی عقائد و حقائق کو سمجھے بغیر اپنائی گئی تھی ، حقیقت یہ ہے یہ دینداری اصل میں جھوٹی اور کاذب دینداری تھی۔
یہ تو ماضی کی مثال تھی ، اس زمانہ میں اس جھوٹی اور کاذب دینداری کی کھلی تصویر سعودی عرب ، ترکی ، مصر وغیرہ جیسے نام نہاد اسلامی ممالک میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے کہ جو سب کے سب دینداری کا چغہ پہنے ہوئے ہیں لیکن فلسطین کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے بجائے اسلام و مسلمین کے کھلے دشمنوں کی غلامی اور نوکری کو اپنے لئے باعث فخر سمجھ رھے ہیں۔
ھمیں چاہیئے کہ ماضی و حال کے اس قسم کے دردناک حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ماہ مبارک رمضان ، محرم اور صفر جیسے اہم مہینوں کو ایک " فرصت مغتنم " سمجھ کر ان میں زیادہ سے زیادہ دین فہمی اور قرآن شناسی کا اھتمام کریں اور ان باعظمت مہینوں کو "مدرسہ دین و قرآن فہمی" بنا دینا ڈالیں ، تاکہ ہم ایک اچھے دین فہم بننے کے بعد ایک موثر اور حقیقی دیندار بن سکیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان مہینوں میں دین فہم بنیں تو کیسے بنیں؟
اس اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ :
اس کے لئے ہمیں ان حقیقی و واقعی باعمل علما کو تلاش کرنا ہوگا جو حقیقتاً دین و قرآن کی پختہ شناخت و معرفت کے ساتھ دین و ملت کے لئے درد بھرا قلب و دل رکھتے ہوں ، اور پھر ان سے پوری لگن ، توجہ اور خلوص کے ساتھ منبر و محراب اور ہر نشست و برخاست میں استفادہ کرنا ہوگا۔
لیکن یہ سچ ہے کہ اس جعل و فریب سے لبریز دور میں حقیقی اور باعمل علما کی شناخت اور ان تک رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ، چونکہ اب تو جسے دیکھو وہ عمامہ اور زرق برق عبا قبا زیب تن ہوئے ہے!!
مگر گھبرانے کی بات اس لئے نہیں ہے کہ جب آپ اور ہم خداوند متعال و مہربان کے مقدس دین کو سچائی کے ساتھ پہچاننے اور پھر اس پر کاربند ہونے کی دھن لے کر قدم آگے بڑھائیں گے اور اس راہ میں واقعاً جد و جہد کریں گے تو خداوندِ ھادی و معین ضرور ہمیں حقیقی دین شناس اور باعمل علما تک پہچائے گا اور اس اہم مرحلہ میں ضرور ہماری مدد فرمائے گا ، چونکہ اس کا یہ اٹل وعدہ ہے:
"والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین " (1)
اور جن لوگوں نے ھماری راہ میں جہد و کوشش کی ، ہم ضرور ان کی ہدایت و راہنمائی کریں گے اور بیشک اللہ تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
(1) قرآن حکیم ، پارہ 11 ، سورہ عنکبوت ، آیہ 69۔