۲۶ آذر ۱۴۰۳ |۱۴ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 16, 2024
مولانا جاوید حیدر زیدی

حوزہ/ بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا، ایک ہی گھر میں دو بچوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو کر انتہاء پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے-

تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | نیک اولاد اللہ کی پیش قیمتی نعمت اور والدین کے لیے مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے، یہی سبب ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت رونق سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن یہ اولاد رونق و بہار اور زینت و کمال کا سبب اسی وقت بنتی ہے جب انھیں زیور تربیت و تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح روش کا خیال رکھاجاتا ہے، ان کی دینی تربیت و پرداخت کو ضروری سمجھاجاتا ہے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انھیں پروان چڑھانے کا اہتمام کیاجاتاہے-

اولاد کی اگر قدر سمجھنی ہے تو اس سے سمجھیں جس کو اللہ نے اولاد سے نہیں نوازا یا اس سے پوچھیں جس کو اولاد سے نواز کر پھر محروم کر دیا- اولاد ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں انہیں پر گھرا،خاندان، محلہ، شہر اور ملک و ملت کی بھلائی منحصر ہوتی ہے، اولاد آنکھوں کے نور اور دل کے سرور ہوتے ہیں، اس لیے فطری طور پر ہر ماں باپ کی تمنا اور چاہت ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت اور نشر و نما ہو، اور یہ خواہش ہونی بھی چاہیے، کیونکہ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت بہتر سے بہتر طریقے سے کریں، کیونکہ اگر آپ ایک پودھے کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کریں گے تو وہ بڑا ہو کر عمدہ اور اچھے پھل دے گا، اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ شیشے کے گلاس کو احتیاط سے رکھیں گے تو اس کے ذریعہ ٹھنڈا اور مزہ دار شربت پی کر لذت محسوس کریں گے اور اگر آپ نے گلاس کو احتیاط سے نہیں رکھا تو وہ آپ کے لئے زخمی ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے یہی حال بچوں کی صحیح اور غلط تعلیم وتربیت کا ہے۔

آج ہمارے معاشرے و سماج میں نیک اولاد کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد تو کافی ہیں بلکہ شاید ہر شخص چاہتا لیکن اس کے لئے کوشش کرنے والے اور صحیح طریقے اور تربیت کے اصولوں پر عمل کر کے انہیں راہ راست پر لانے والے بہت کم ہیں، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہےجو ایسا رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جس سے اولاد کے سنورنے کے بجائے بگڑنے کی امید زیادہ ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اولاد سے لاڈ پیار کرتے ہیں اور اس لاڈ پیار میں ان کی اصلاح اور تربیت سے بلکل غافل ہو جاتے ہیں، بعض لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری بھول جاتے ہیں اور پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہاں ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، وہاں ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہے یا نہیں؟ ان کو اللہ وہ رسول کا فرماں بردار بننے اور رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اس پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے-

یہ بات ہمارے دلوں پر نقش ہونی چاہیے کہ اولاد کو دین دار بنانے کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو دین دار بننا لازمی ہے، دور حاضر میں اکثر بے شعور ماں باپ کی اپنی اولاد کو دین دار دیکھنے خواہش تو ضرور ہوتی ہے لیکن وہ خود دین پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے، اور نیک اعمال و افعال سے بالکل ہی دور رہتے ہیں، ان کی اپنی زندگی میں نہ حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے نہ نماز کی پابندی اور نہ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے، نہ وہ سنتوں کی پابندی کرتے ہیں، پھر بھی ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک اور صالح بن جائے، اس کے لئے وہ اپنے بچوں کو اچھے مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجتے ہیں، با کمال اساتذہ کا انتظام کرتے ہیں، اور انہیں دینی محفلوں وغیرہ میں بھی بھیجتے ہیں،بلاشبہ یہ ساری چیزیں اچھی ہیں مگر بچے اساتذہ اور دینی محفلوں وغیرہ سے زیادہ اپنے ماں باپ اور گھریلو ماحول کو دیکھ کر اسی طرز پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں-

اولاد کی تربیت بہت ہی نازک اور دیر طلب کام ہے، اس میں سب سے پہلے ماں باپ کو خود دین دار بننا ضروری ہے، خاص طور پر گناہ کبیرہ، بے نمازی پن، بے پردگی، حرام کمائی، گانے بجانے، فلمیں دیکھنے، گالی گلوج، شراب نوشی اور فضول خرچیاں وغیرہ کر نے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا، کیونکہ بچوں کی سب سے بڑی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے کہنے کی صورت میں اتنا نہیں سیکھ پاتے جتنا عملی طور پر کر کے بتانے یا کرتے ہوئے دیکھنے کی شکل میں سیکھ جاتے ہیں، چنانچہ ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، گالی گلوج، رشتے داروں کے ساتھ نا اتفاقی یا کسی قسم کے اخلاقی قدروں کو بچوں کے سامنے پامال کرنا بچوں کی تربیت کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے-

گھروں میں عام طور پر ماں باپ اور گھر کے بڑے بزرگ کا جیسا مزاج اور رویہ ہوتا ہے اولاد بھی اسی مزاج اور نوعیت کی تربیت پاتی ہے۔

ماں باپ ہی اولاد کے لیے سب سے پہلا، سب سے اہم، سب سے بڑا اور سب سے ضروری مدرسہ ہیں، اور بچے ماں باپ کی نصیحتوں سے اتنا کبھی نہیں سیکھ پاتے جتنا ان کے کردار اور باہمی سلوک سے سیکھتے ہیں، کیونکہ بچوں کی تربیت میں والدین کا ہی کردار سب سے اہم ہوتا ہے، بچہ کم عمری میں اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، ہر طرح کے نا پسندیدہ کاموں اور غیر اسلامی حرکتوں سے اجتناب اور پرییز کرتے ہوئے اسلامی اور اچھے اعمال و افعال کا مظاہرہ کرنا چاہیے-

اولاد کی تعلیم و تربیت سے بے توجہی: آج دنیا میں بہت سے لوگ ایسے پاۓ جاتے ہیں جنہیں خود اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی بالکل ہی فکر نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دےکر صرف اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے،ایسے لوگ عموماً اپنے بچوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ بعضوں کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہوتی ہے؟اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں ؟ اس بڑی غفلت کے وہ لوگ بھی شکار ہیں جو خود تو نمازی ہیں،اور کچھ اخلاقی آداب سے بھی واقف ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں ہے، حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لئے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق اور اس کے کردار کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟

بعض لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں، مصلح بھی ہیں، بلکہ مرشد بھی ہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ کی، کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی کتاب لکھی یا کوئی رسالہ ترتیب دیا، لیکن خود اپنی اولاد کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس سے بارہ سال ہو جاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو حقیقی علم سے بالکل ہی محروم رکھتے ہیں، یعنی اپنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے، بیس پچیس سال کی اولاد ہو جاتی ہے اور انہیں کلمہ تک یاد نہیں رہتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اس کے فرائض و واجبات، اور نہ ہی اسلام کے بنیادی عقائد کی انہیں خبر ہوتی ہے، گویا وہ مبادیات اسلام و ضروریات اسلام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اس بات کے جواب دہ ان کے ساتھ ان کے والدین بھی ہوں گے-

اور بعض والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا احساس تو رکھتے ہیں لیکن اسے معمولی بات سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بہت ہی عظیم اور اہمیت کی حامل بات ہے، اور اس جانب والدین کی کم توجہی نا قابل تلافی نقصان کا ذریعہ بن رہی ہے، اور یہ نقصان دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، اور اگر والدین چاہیں تو ایک ذرا سی توجہ سے انقلابی تبدیلی اور بدلاؤ ظاہر ہو جائے گی(ان شاءاللہ)

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جنہیں رات و دن اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے اور وہ اس کے لئے کئی طرح کی قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے علاوہ اکثر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے آخر ایسا کیوں؟ کیون کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کے خواہش مند تو ہوتے ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں و اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور مستقل مزاجی اور تسلسل سے یہ کام نہیں کرتے-

ہم بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے بارے میں کچھ اصول درج کرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو اپنا کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی جانب دھیان دیا تو ان شاءاللہ ہمارے بچے دین دار اور قوم وملت کے لئے باعث فخر ثابت ہوں گے-

بچوں کی صحیح تربیت کے لیے کچھ اہم امور و رہنما اصول:

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ اس کی اچھی تربیت ہے،جو بچوں کو اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے، اس تربیت کا سب سے اہم پہلو بچوں کے ساتھ والدین خاص طور پر ماں کے طرزِ عمل سے متعلق ہیں اس بارے میں کچھ اصولی باتیں درج کی جا رہی ہیں!

بنیادی دینی تعلیم :- ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے، قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے، سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے، بچوں کو بالکل ابتدا(شروعاتی دور) سے اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا اور انہیں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے کام کو ملاحظہ فرما رہا ہے-

اخلاقی تربیت :- بچوں کو ابتدائی عمر سے اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانتداری ، بہادری ، احسان شناسی ، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوج اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے، شروعاتی عمر سے ہی محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے-

جسمانی تربیت:- والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما غزا اور آرام کا خیال رکھا جائے، اور انہیں ورزش کا عادی بنایا جائے، جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے-

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لئے پرہیز کرنا ضروری ہے:

(1) تحقیر آمیز سلوک:- بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے، بچوں کی توہین و تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے-

(2) سزا میں اعتدالی:- بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے-

(3) بےجا لاڈ پیار:- بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے اس میں بھی اعتدال نہایت ضروری ہے-

(4) بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا:- ایک ہی گھر میں دو بچوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو کر انتہاء پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے-

یہ بچے پھول کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ہم پھول کو ہر روز پانی ڈالیں تو یہ دن بدن نکھرے گا اور اگر ہم اسے پانی نہ ڈالیں تو یہ بکھرے گا۔ اگر آپ اپنی اولاد کو نکھرتے ہوے دیکھنا چاہتے ہیں تو اسکی بہترین تربیت کریں۔ خالص ہوتا ہے وہ پیار جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں نیک و صالح والدین بنائے، ہمیں صالح اولاد سے نوازے اور ہم سب کو بچوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطاء کرے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .