پیر 15 ستمبر 2025 - 16:03
اگر خدا سب کچھ پہلے سے جانتا ہے تو پھر اختیار کا کیا مطلب ہے؟

حوزه/ صدیوں سے فلسفیوں اور علمِ کلام کے ماہرین کے ذہنوں کو ایک بنیادی سوال نے مشغول کر رکھا ہے: اگر خدا ازل سے ہر چیز جانتا ہے، تو پھر انسان کی آزادی اور اختیار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ کیا خدا کے پہلے سے جاننے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اختیار اور انتخاب کی گنجائش باقی نہیں رہتی؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خدا کے علمِ ازلی (پہلے سے سب کچھ جاننے) اور انسان کے اختیار کا مسئلہ ہمیشہ سے دانشوروں اور مفکرین کے درمیان بحث و گفتگو کا موضوع رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک عام شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے:

شبہ:

«اگر خدا پہلے سے جانتا ہے کہ میں کیا کروں گا → تو میں مجبور ہوں»

یہ سوچ دراصل ایک مغالطہ ہے، اور اس میں "علت" اور "معلول" کو آپس میں بدل دیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا جانتا ہے کیونکہ تم انتخاب کرو گے، نہ یہ کہ تم انتخاب کرتے ہو کیونکہ خدا جانتا ہے۔

وضاحت :

یہ بات بظاہر ایک تضاد لگتی ہے کہ اگر خدا ازل سے جانتا ہے کہ میں کیا کرنے والا ہوں، تو پھر میرے پاس اختیار کیسے ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ "جاننا" اور "مجبور کرنا" دو الگ چیزیں ہیں۔

خدا کا علم ہمارے اعمال پر ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی واقعے کو براہِ راست دیکھ رہا ہو۔ خدا وقت سے باہر ہے اور ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ ایک ساتھ اس کے سامنے ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم ایک ریکارڈ شدہ فلم کو پورا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن فلم دیکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے کسی کردار کو مجبور کیا۔

انسان حقیقت میں مختار ہے، اور اس کی مرضی بھی اس دنیا کی ایک حقیقی علت (سبب) ہے۔ جس طرح آگ کا کام جلانا ہے، اسی طرح انسان کی "ارادہ و مرضی" بھی اس کے عمل کا حقیقی سبب ہے۔ اس لیے خدا جانتا ہے کہ انسان کیا کرے گا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے انتخاب کرے گا، نہ یہ کہ وہ اس لیے انتخاب کرے کہ خدا پہلے سے جانتا ہے۔

مثال:

فرض کریں ایک کیمرہ ہر چیز ریکارڈ کر رہا ہے۔ اگر ویڈیو میں دکھایا جائے کہ میں نے ہاتھ اٹھایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کیمرے نے مجھے مجبور کیا۔ وہ صرف حقیقت کو دکھا رہا ہے۔ اسی طرح خدا کا علم ہمارے "اختیار" کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔

فلسفی پہلوٴ

الف) وقت کی حقیقت: ہم وقت کو "خطی" (ماضی → حال → مستقبل) سمجھتے ہیں۔

لیکن خدا وقت سے ماورا ہے، اس کے نزدیک سب وقت ایک ساتھ ہے۔ اس لیے اس کا جاننا "پیش گوئی" نہیں بلکہ "براہِ راست مشاہدہ" ہے۔ اور "دیکھنا" کبھی جبر پیدا نہیں کرتا۔

ب) اختیار ایک حقیقی سبب ہے: انسان کا ارادہ ایک حقیقی علت ہے، جیسے آگ جلانے کی علت ہے۔ اگر ہم ارادے کو ختم کر دیں تو انسان کے وجود کا مفہوم ہی ختم ہو جائے گا۔

ج) اخلاقی ذمہ داری: اگر سب کچھ جبر ہوتا تو اخلاق و قانون کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی، کیونکہ پھر کوئی اپنے عمل کا ذمہ دار نہ ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب لوگ (یہاں تک کہ ملحد بھی) اپنی زندگی میں "اختیار" اور "ذمہ داری" کو مانتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اختیار انسان کی فطرت کا ایک انکار نہ ہونے والا پہلو ہے۔

شواہد دینی

قرآن کہتا ہے: «إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً»

"ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، اب چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا" (سورہٴ انسان، آیت ۳)۔

یعنی دو راستے دیے گئے، انتخاب انسان کے اختیار میں ہے۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: «لا جبر و لا تفویض، بل أمر بین الأمرین.» "نہ جبر ہے نہ بالکل آزادی، بلکہ دونوں کے درمیان ایک حقیقت ہے۔"

یعنی خدا نے ایک ایسا نظام بنایا ہے جس میں انسان اپنی مرضی سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے فیصلے کا جواب دہ بھی ہے۔

نتیجہ:

خدا کا جاننا کسی کو مجبور نہیں کرتا۔

اختیار کائنات کے نظام کا حقیقی حصہ ہے۔

اگر اختیار نہ مانا جائے تو اخلاق، قانون اور حتیٰ کہ سائنسی تحقیق بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔

اس لیے خدا کا پہلے سے جاننا اور انسان کا آزاد ہونا ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا صرف یہ جانتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کے ساتھ کیا کرے گا۔

منابع:

آیین رحمت (معارف اسلامی و کلامی مباحث)

پرسمان دانشجویی

حوزه نٹ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha