حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ المصطفیٰ شعبۂ ہندوستان کے تحت بمناسبتِ یومِ وفاتِ حضرت امّ البنینؑ، ایک علمی و تربیتی نشست کا انعقاد ہوا، جس میں نمائندے جامعۃ المصطفی ہند حجت الاسلام و المسلمین استاد سید کمال حسینی نے حضرت امّ البنینؑ کی شخصیت، ان کی ولائی تربیت، ان کی اولاد کی قربانی اور اہلبیتِ اطہارؑ کے ساتھ ان کے بے مثال احترام پر گفتگو کی۔
حجت الاسلام حسینی نے کہا کہ جس طرح تاریخِ اسلام میں امام حسینؑ سید الشہداء ہیں، اسی طرح امام حسینؑ کے اصحاب میں حضرت ابوالفضل العباسؑ، فرزندِ امّ البنینؑ، سید الاصحاب ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ حضرت امّ البنینؑ کے چاروں فرزند—عباسؑ (۳۴ سال)، عبداللہؑ (۲۴ سال)، عثمانؑ (۲۱ سال) اور جعفرؑ (۱۹ سال)—کربلا میں راہِ حق میں شہید ہوئے اور یہ ان کی ولائی تربیت کا روشن ثبوت ہے۔
حجت الاسلام حسینی نے شہید مطریؒ کا قول نقل کیا: اگر اللہ والے مردوں کی فضیلت اللہ کی راہ میں شہادت ہے تو چار بیٹوں کو شہادت کے لیے تیار کرنا امّ البنینؑ کا ہنر ہے۔
انہوں نے نے کہا کہ تاریخ میں عظیم شخصیات اکثر اپنے والدین کی تربیت سے بلند مرتبے پر پہنچیں۔ حضرت عباسؑ بھی اپنے والد امیرالمؤمنینؑ اور والدہ امّ البنینؑ کی تربیت کی بدولت مقامِ وفا و ایثار کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچے۔
انہوں نے رسولِ اکرمؐ کی حدیث ذکر کی جس میں آنحضرت نے فرمایا: یاعلی! تمہاری مثال میری امت میں سورہ ‘قل ھو الله احد’ کی سی ہے۔
انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے سورۂ توحید کی فضیلت اور اس کے ایمان کے مراتب سے تعلق پر روشنی ڈالی۔
حجت الاسلام حسینی نے حدیث کے الفاظ یوں بیان کیے:
• جو شخص علیؑ سے زبان سے محبت کرے، اس کا ایک تہائی ایمان مکمل ہوا۔
• جو زبان و دل سے محبت کرے، اس کا دو تہائی ایمان مکمل ہوا۔
• اور جو زبان و دل سے محبت کرے اور ہاتھوں سے نصرت کرے، اس نے ایمان کو حقیقتاً کامل کر لیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ علیؑ سے محبت صرف شیعوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ محبت غیر مسلموں تک بھی پائی جاتی ہے، جیسے مشہور مسیحی ادیب جورج جرداق۔
حجت الاسلام حسینی نے حضرت ام البنین کی فضیلت اور خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امّ البنینؑ، حسنینؑ اور زینبینؑ کے لیے ایک انتہائی مہربان اور شفیق ماں تھیں۔ وہ ہمیشہ اپنے بچوں سے پہلے فاطمہ زادوں کو کھانا دیتی تھیں۔ ان کی محبت اور احتیاط کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے امیرالمؤمنینؑ سے درخواست کی: یا علی! بچوں کے سامنے مجھے فاطمہ نہ کہیے، کہیں انھیں اپنی والدہ کی یاد نہ آ جائے۔ یہ ان کے ایثارِ جذبات اور حقیقی مادری شفقت کی روشن مثال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جناب امّ البنینؑ نے حق کو پہچان کر پوری بصیرت کے ساتھ اس کا ساتھ دیا۔کربلا میں علیؑ موجود نہ تھے، لیکن انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو تاکید کی کہ ہمیشہ حسینؑ کی نصرت کرنا اور انہیں کبھی تنہا نہ چھوڑنا۔ وہ چاہتیں تو بڑھاپے کا سہارا رکھنے کے لیے ایک بیٹا اپنے پاس روک سکتیں، مگر انہوں نے دین و امامت کے دفاع کو ترجیح دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حضرت عباسؑ نے اپنی پوری زندگی میں امام حسینؑ کو نام لے کر نہیں پکارا، بلکہ ہمیشہ میرے آقا و مولا کہہ کر خطاب کیا اور یہ ادب انہوں نے اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔ اسی طرح اہلبیتؑ نے بھی امّ البنینؑ کے احترام میں کبھی کمی نہ کی۔ واقعۂ کربلا کے بعد سب سے پہلے حضرت زینبؑ ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے گئیں۔
حجت الاسلام سید کمال حسینی نے حضرت ام البنین کی اولاد کی تربیت کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت امّ البنینؑ نے اپنی ہر اولاد کو دین کی خدمت اور امامِ وقت کی نصرت کے لیے تربیت دی۔ حضرت عباسؑ کی ولادت کے موقع پر جب امیرالمؤمنینؑؑ نے ان کے بازو چوم کر گریہ کیا اور فرمایا کہ یہ بازو حسینؑ کی نصرت میں کٹیں گے تو امّ البنینؑ نے اسی مقصد کو اپنے بیٹے کی تربیت کا محور بنا لیا۔ کربلا میں جب عباسؑ کا دایاں ہاتھ کٹا تو انہوں نے پکارا:والله! ان قطعتم یمنی… قسم خدا کی! اگر تم میرا دایاں ہاتھ کاٹ دو تو میں بائیں ہاتھ سے آلِ رسولؐ کی مدد کروں گا۔ یہ امّ البنینؑ کی تربیت کا حقیقی نتیجہ تھا۔
انہوں نے جناب ام البنین کی سیاسی بصیرت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کربلا کے بعد امّ البنینؑ بقیع میں جا کر اپنے بیٹوں کے لیے چار علامتی قبریں بناتیں اور فرمایا کرتی تھیں: میں تم پر نہیں روؤں گی، میں اس پر روؤں گی جس کی ماں موجود نہیں۔ بقیع میں یہ آشکارا گریہ محض سوگ نہیں تھا؛ یہ ظلم کے خلاف سیاسی احتجاج اور حکومت وقت کی پالیسیوں کے خلاف خاموش اعلانِ مقاومت تھا۔
آخر میں حجت الاسلام حسینی نے آیت الله سید محمود مرعشی کا قول نقل کیا کہ جناب عباسؑ “بابالحوائج” ہیں اور ان کی والدہ “بابالعباس”۔آیت الله مرعشی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی حاجت کے لیے 100 مرتبہ صلوات پڑھ کر امّ البنینؑ کو ہدیہ کرتے اور ان سے سفارش کی درخواست کرتے۔
واضح رہے اس علمی نشست میں جامعہ المصطفیٰ شعبۂ ہندوستان کے تمام کارکنوں نے حضوری شرکت کی، جبکہ ہندوستان کے اکثر شیعہ مدارس کے طلاب و طالبات نے آن لائن شرکت کی۔









آپ کا تبصرہ