تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | صہیونی حکومت اس وقت شدید داخلی اور خارجی دباؤ میں ہے۔ ایک طرف، اس کے پاس جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی اور آئرن ڈوم جیسی جدید حفاظتی دفاعی نظامات موجود ہیں، تو دوسری طرف مجاہدین فلسطین کی مقاومت اس کی حکمت عملیوں کو پاش پاش کر رہی ہے۔ اسرائیلی حُکام کا یہ دعویٰ کہ حماس اور دیگر مقاومتی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے دی گئی آزادیوں یا مذاکراتی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہیں، اپنی ہی عوام کو ایک جھوٹے سکون کا لولی پاپ دینے کے مترادف ہے۔
یائر لاپید، جو صہیونی حکومت کی اپوزیشن کا سربراہ ہے، نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی کابینہ اور خود وزیراعظم نیتن یاہو ایسی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے جس میں جھوٹ اور جعل سازی کا سہارا لے کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومتی منصوبہ بندی ہے کہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات اور اسیران کی واپسی کے معاملات کو جان بوجھ کر پیچیدہ اور مشکوک بنا رہے ہیں۔ جب بھی داخلی تنقید یا احتجاج کا سامنا ہوتا ہے تو صہیونی حکومت سازشی کہانیاں اور من گھڑت بیانات کے ذریعے اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔
حکومتی ذرائع کی جانب سے اکثر جعلی اسناد یا خفیہ معلومات کو جان بوجھ کر افشا کرنا اسرائیلی معاشرت میں بے چینی کو بڑھا رہا ہے۔ کچھ روز پہلے ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خود حکومت کے اندرونی لوگ خفیہ اسناد کو جعل سازی کے ساتھ عوام میں پھیلا رہے ہیں تاکہ عوام کو غلط حقائق اور دھوکہ دہی میں مبتلا رکھا جا سکے۔ ایسے میں اسرائیل کے عام شہریوں کو حقیقی صورتحال کا اندازہ نہیں ہو پاتا اور وہ اپنی حکومت کی اصل ناکامیوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
غزہ میں جاری جنگ اور فلسطینی اسیران کے مسائل کے حل میں تعطل پر اسیران کے اہل خانہ نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیتن یاہو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نہ صرف اسرائیل کے اسیران کو نظر انداز کر رہا ہے بلکہ انہیں سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسیران کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی مجرمانہ حکمت عملی اسرائیل کی سلامتی کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ جنگ کو طول دینا اور مسئلے کو مذاکراتی حل سے دور رکھنا ایک ایسا اقدام ہے جس سے اسیران کے اہل خانہ میں مایوسی اور بد اعتمادی بڑھ رہی ہے۔
اس صورتحال میں، فلسطینی مقاومتی گروہوں کی استقامت اور عزم نے اسرائیل کے عوام کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی حکمت عملی میں بنیادی نقصانات موجود ہیں۔ صہیونی حکومت کے پاس جدید وسائل کے باوجود ان کے اقدامات اور پالیسیوں میں مستقل ناکامی نظر آتی ہے۔
صہیونی حکومت کی یہ ناکام حکمت عملی صرف عوامی سطح پر ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسرائیل کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔ عالمی برادری کے سامنے اسرائیل کے بار بار ہونے والے جھوٹے دعوے اور فریب کاریوں نے اس کے رویے کی عکاسی کی ہے، جس کی وجہ سے اس کے حامی ممالک کی حمایت بھی کمزور پڑ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور مختلف ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کی کاروائیوں پر تنقید، اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری اب اس حکومت کی حقیقتوں سے آگاہ ہو چکی ہے۔
مزید برآں، فلسطینی مقاومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک حق کی جنگ ہے جو کئی نسلوں سے جاری ہے۔ یہ حقیقت کہ صہیونی حکومت جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے باوجود فلسطینیوں کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقاومت میں شامل لوگ محض فوجی ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ اپنے عزم و حوصلے سے لڑ رہے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین کی کامیاب کاروائیاں اس بات کی علامت ہیں کہ جب لوگ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے نکلتے ہیں تو وہ عالمی طاقتوں کو بھی چیلنج کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
یہاں تک کہ اسرائیلی عوام بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف ان کا معاشی استحکام متاثر ہو رہا ہے بلکہ وہ ایک غیر محفوظ مستقبل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی، احتجاج اور اپوزیشن کی آوازیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ خود اسرائیلی شہری بھی اپنے حکام کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود، نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے وزراء اپنے جھوٹے بیانات سے باز نہیں آ رہے، بلکہ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حماس کی مقاومت اور فلسطینیوں کی جدوجہد صرف ایک غیر اہم مسئلہ ہے۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل کی موجودہ صورتحال ایک عکاسی ہے کہ طاقتور ترین فوجی قوّت بھی جب عوام کی حمایت سے محروم ہو جائے تو وہ اپنے مفادات کو نہیں بچا سکتی۔ فلسطینی عوام کی استقامت اور جدوجہد نہ صرف ان کی بقاء کا معاملہ ہے، بلکہ یہ ایک ایسی مثال قائم کر رہی ہے جو آنے والے دنوں میں عالمی سیاست اور طاقت کے توازن کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی برادری، فلسطینی عوام کی آواز کو سنیں اور انہیں ان کے حقوق کے حصول میں مدد فراہم کریں۔