تحریر: امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال ایک عظیم تغیّر کی عکاسی کرتی ہے، جس کا آغاز فلسطین کی مقدس زمین سے ہوتا ہے۔ جہاں آج سے کئی دہائیاں قبل اسرائیل نے ایک خوفناک قوّت کے طور پر قدم جمایا، آج وہی اسرائیل ایرانی اثرات اور استقامت کے سامنے بے بس نظر آ رہا ہے۔ ایک یہودی خاخام کی پیش گوئی، جو حضرت الیاس نبی علیہ السلام کی تعلیمات سے منسوب کی جاتی ہے، اسرائیل کی موجودہ صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ خاخام کے مطابق بنی اسرائیل کی حکومت کی عمر ایک انسان کی عمر جتنی ہے اور اس کا خاتمہ ایرانیوں کے ہاتھوں مقدر ہے۔ یہ پیشگوئی ایک طرف اسرائیلی معاشرے کے اندر اضطراب پیدا کر رہی ہے تو دوسری طرف ایرانی استقامت کے عزم اور حوصلے کو مضبوط تر کر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں ایران کی قیادت میں ایک اسلامی اتحاد اور استکباری طاقتوں کے خلاف مقاومتی فکر کا اِحیا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس اتحاد کا مقصد محض عسکری یا اقتصادی قوّت کا اظہار نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے جو استکبار کے خلاف ہے۔ یہ اتحاد فلسطین، لبنان، شام، عراق اور یمن میں ایران کے اثرات کو مضبوط کر رہا ہے اور اسرائیل کے لیے خطے میں ایک نئی قوّت کا پیغام دے رہا ہے۔
افغان طالبان بھی اسرائیل کے مخالف ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں نرمی اور شمولیت پسندی کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے، جو خطے کی سیاست کا رُخ بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے خلاف جاری مقاومتی تحریکیں اب ایک وسیع تر اور مضبوط اتحاد میں تبدیل ہو رہی ہیں، جس سے خطے میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی متوقع ہے۔
تاریخی طور پر اسرائیل کو ایک ناقابل شکست ریاست سمجھا جاتا تھا۔ اسرائیل نے 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران کئی عرب ممالک کو شکست دی، جس نے خطے میں اس کی دھاک بٹھا دی۔ مگر آج کا اسرائیل ایک بدلی ہوئی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ غزہ میں ایک سال سے زیادہ جاری جنگ میں اسرائیل کو غزہ کی مقاومت کا سامنا ہے، جس کے پیچھے ایران کی مکمل حمایت شامل ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے اسرائیل کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ اپنی ماضی کی طاقت اور اثر و رسوخ سے محروم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران پر حملے کے باوجود وہ ممالک جن کی بقا اسرائیل سے وابستہ ہے، انہوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ یہ ردعمل ایران کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی برادری اب اسرائیل کے غیرانسانی رویے سے بیزار ہو رہی ہے۔ ایران کے حق میں یہ حمایت اس کے حق پر مبنی موقف کو تقویت بخشتی ہے اور اسرائیل کے لیے ایک سنگین سیاسی شکست ثابت ہوتی ہے۔
غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والا قتل عام ایک حقیقی ہولوکاسٹ ہے جس پر مغربی ذرائع ابلاغ بھی اظہار خیال کر رہے ہیں۔ بعض مغربی میڈیا نے اس قتل عام کو ’ہولوکاسٹ‘ سے تشبیہ دی ہے، جہاں غزہ کی دس فیصد آبادی، یعنی تقریباً دو لاکھ افراد اسرائیلی جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہ اسرائیل کے اس چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویدار بنتا ہے، مگر عملی طور پر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔
ان حالات میں ایران کی خطے میں موجودگی اور اثر و رسوخ کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایرانی استقامت اور مقاومت کی فکر نے نہ صرف خطے میں ایک نئی طاقت کو جنم دیا ہے بلکہ اسرائیل کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جس تحریک میں سید حسن نصراللہ، یحییٰ السنوار ہاشم صفی الدین اور ان جیسے عزم و حوصلے والے افراد شامل ہوں، اسے مٹانا ممکن نہیں۔ یہ پُختہ فکر اور عزم نہ صرف مقاومت کو آگے بڑھاتے ہیں بلکہ ہر چیلنج کے سامنے سینہ سپر ہو کر اسے شکست دینے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن اب بدل چکا ہے اور اب ایک نئے عالمی منظرنامے کی تشکیل ہو رہی ہے جہاں مقاومتی قوّتیں محض اپنے علاقوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ عالمی سطح پر استکبار اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایران اور اس کے اتحادیوں کی مقاومتی تحریکیں اسرائیل کے لیے ایک ایسا چیلنج بن چکی ہیں جس کا سامنا کرنا اب اس کے بس سے باہر ہو رہا ہے۔ یہ تحریکیں اس عزم کا مظہر ہیں کہ جب تک مظلوم قوموں پر ظلم ہوتا رہے گا، مقاومت کی یہ چنگاری بھڑکتی رہے گی اور آزادی کی یہ جنگ جاری رہے گی، جس کا انجام ان مظلوم قوموں کی فتح اور استکبار کی شکست کی صورت میں ہی ہوگا۔