۱۵ آبان ۱۴۰۳ |۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 5, 2024
سنی شیعہ

حوزہ/مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات میں فلسطین کا مسئلہ، امت مسلمہ کے لیے ایک دیرینہ زخم کی مانند ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت، اسرائیلی جارحیت اور عالمی برادری کی خاموشی ایک ایسی صورت حال ہے جس پر مسلم ممالک کے لیے خاموش رہنا ناممکن ہونا چاہیے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی | مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات میں فلسطین کا مسئلہ، امت مسلمہ کے لیے ایک دیرینہ زخم کی مانند ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت، اسرائیلی جارحیت اور عالمی برادری کی خاموشی ایک ایسی صورت حال ہے جس پر مسلم ممالک کے لیے خاموش رہنا ناممکن ہونا چاہیے، مگر حقیقت میں مسلم دنیا کی تقسیم، اور خاص طور پر شیعہ سنی تفریق، اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ ایسے میں ایران ایک ایسی مثال کے طور پر سامنے آیا ہے، جو شیعہ سنی تفریق سے بالاتر ہوکر امت مسلمہ کے مظلوم عوام، خصوصاً فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔

حال ہی میں حجۃ الاسلام ڈاکٹر ناصر رفیعی نے زاہدان کے امام جمعہ مولوی عبدالحمید سے ایک اہم سوال کیا کہ انہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے کتنی تقاریر کی ہیں۔ یہ سوال بظاہر ایک دعوتِ فکر ہے کہ جب ایران جیسے ملک نے ہمیشہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کی، تو دیگر مسلم ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک کیوں خاموش ہیں؟ کیا شیعہ سنی تفریق اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہے یا کہیں یہ عرب دنیا کی ایک منظم غفلت کا نتیجہ ہے؟

ایران کا موقف، کہ شیعہ اور سنی کی تفریق کیے بغیر ہر مظلوم مسلمان کی حمایت کی جائے، عالمی برادری کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ ایران نے فلسطینیوں کے حق میں ہمیشہ عملی اقدامات کیے، چاہے وہ مالی مدد ہو، عسکری تربیت ہو، یا اسرائیل کے خلاف مضبوط بیانیہ ہو۔ اس کے برعکس، بعض عرب ممالک کے رویے میں جھجک اور سردمہری نے مظلوم فلسطینیوں کے لیے ان کی ہمدردی کو مشکوک بنا دیا ہے۔ خاص طور پر مصر جیسے ملک کی مثال لی جائے، جس نے غزہ کی سرحد پر رفح کراسنگ بند رکھی ہوئی ہے۔ یہ کراسنگ فلسطینیوں کے لیے نہ صرف سامان، بلکہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا واحد راستہ ہے۔ اس کا بند رہنا اور فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا یہ سوالات پیدا کرتا ہے کہ آیا عرب ممالک اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مخلص ہیں یا ان کا مقصد صرف اپنی سیاست اور مفادات کی تکمیل ہے؟

مولوی عبدالحمید سے سوال کرنے کا مقصد شاید یہ تھا کہ ایران کا نقطہ نظر سامنے لایا جائے کہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہونے کے باوجود، اس نے ہمیشہ اتحاد امت کو اولیت دی۔ ایران کے لیے مذہبی فرقے نہیں بلکہ مظلومیت کی حمایت اور عدل کی بات اہم ہے۔ اس کے اقدامات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران اپنی داخلی پالیسیوں میں فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکر حقیقی طور پر مسلم امہ کی حمایت کرتا ہے۔ یہی بات مولوی عبدالحمید کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ مذہبی شخصیات اور عوامی رہنما اس وقت کی ضرورت کو سمجھیں اور عملی طور پر فلسطین کے حق میں آواز بلند کریں۔

یہ سوالات دراصل مسلم دنیا کو اپنی ذمہ داریوں پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ محض خطابات تک محدود نہ رہیں، بلکہ عملی اقدامات کریں۔ مسلم دنیا کو اب سمجھنا ہوگا کہ اگر فلسطین کے مسئلے کو صرف فرقہ وارانہ عینک سے دیکھنے کی کوشش کی گئی تو اس سے دشمنوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اتحادِ امت کے لیے ضروری ہے کہ سب مل کر، بلا تفریق، فلسطینیوں کے حق میں ایک مؤثر اور عملی موقف اختیار کریں تاکہ دشمن کی سازشیں ناکام بنائی جا سکیں۔

مسلم دنیا کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایران جیسے ممالک نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ فلسطین کا مسئلہ کسی مخصوص فرقے کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک، عرب اور غیر عرب، اپنے اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کے لیے آگے آئیں۔

یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر امت مسلمہ فرقہ وارانہ تفریق سے اوپر اٹھ کر حقیقی وحدت کی طرف بڑھنے میں ناکام رہی تو فلسطین کے عوام کی مشکلات کبھی ختم نہ ہو سکیں گی۔ آج کا دور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلم ممالک خصوصاً عرب دنیا عملی اقدامات کی طرف توجہ دے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ ماضی کی طرح زبانی جمع خرچ کے بجائے مسلم حکمرانوں کو اتحاد و عمل کا وہ پیغام دینا ہوگا جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔

عرب اور غیر عرب ممالک کا اس وقت خاموش رہنا دراصل دشمنوں کو فلسطینی حقوق کے مزید استحصال کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ خاموشی ایک خطرناک پیغام ہے کہ امت مسلمہ اب بھی ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد نہیں ہو سکتی۔ اتحاد کی بنیاد پر، اگر سب مسلمان ممالک اپنی طاقتوں کو اکٹھا کریں اور عملی طور پر دشمن کی جارحیت کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، تو یہ ممکن ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کو حقیقی انصاف فراہم کیا جا سکے۔

علاوہ ازیں، ایران نے جس طرح عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کر کے اسرائیل کے خلاف فلسطین کی حمایت جاری رکھی ہے، یہ دوسری مسلم ریاستوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ اگر مصر، قطر، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی ایران کے موقف کی حمایت میں کھل کر سامنے آئیں تو عالمی سطح پر اسرائیل پر ایک دباؤ پیدا ہوگا۔ عرب ممالک کے تعاون اور عملی شراکت داری کے بغیر فلسطین کی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان ممالک، خصوصاً عرب دنیا، فلسطین کے مسئلے کو اپنی خارجہ پالیسی کا اولین حصہ بنائیں اور اسے کسی بھی بین الاقوامی تعلقات پر فوقیت دیں۔ دوسرے مرحلے میں، انہیں عالمی پلیٹ فارمز جیسے کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں فلسطینی مسئلے کو اس قوت سے اٹھانا ہوگا کہ عالمی طاقتیں اس تنازعے کو نظر انداز نہ کر سکیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .