تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| فلسطینی عوام پر عرصہ دراز سے ظلم اور مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور اس دوران وہ رہنما جو ان کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، ان کا طرزِ زندگی اور عوام کے ساتھ جُڑے رہنے کا انداز ہمیں ایک غیر معمولی اتحاد کی مثال دیتا ہے؛ فلسطینی مقاومتی رہنما عوام کے ساتھ اپنے عملی تعلق کو اس طرح نبھاتے ہیں کہ عوام خود کو کبھی اکیلا محسوس نہیں کرتے۔ اس کی بہترین مثال حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کی زندگی اور ان کی شہادت ہے۔
یحییٰ السنوار ایک ایسے رہنما تھے جو صرف الفاظ یا نعروں تک محدود نہ تھے، بلکہ انہوں نے عملاً اپنی زندگی کو عوام کی طرح گزارا۔ عبرانی میڈیا کے مطابق، یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد ان کے جسد کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ڈاکٹروں نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ انہوں نے شہادت سے 72 گھنٹے پہلے تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مقاومتی رہنما ہونے کے باوجود، عوامی سطح پر موجود مشکلات میں برابر کے شریک تھے۔ یہ ہیں وہ اصولی رہنما جو عوام کو صرف اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے یحییٰ السنوار کے پاس کئی سہولیات مہیا ہو سکتی تھیں، مگر ان کیلئے یہ سب غیر اہم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ایک رہنما ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عوام جیسی زندگی گزاریں اور ان کی مشکلات کو عملاً برداشت کریں۔ السنوار نے ثابت کیا کہ ایک حقیقی لیڈر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عوام سے جدا نہیں ہوتا، بلکہ ہر مشکل میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔
فلسطین کے مقاومتی رہنما اپنے عوام کو محض وعدوں کا سہارا نہیں دیتے بلکہ ان کے ساتھ کھڑے رہ کر، اپنی زندگی میں ان کے غموں کو بانٹ کر اور ان کے لیے مثالی نمونہ بن کر رہتے ہیں۔ آج کے دور میں جب اکثر رہنما مراعات اور آسائشوں میں گِھرے رہتے ہیں، یحییٰ السنوار نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ عوام کے لیے قربانی دینا کیسا ہوتا ہے۔
یہ کہانی ہمیں ایک رہنما کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ وہ لیڈر ہیں جو آسان راستہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ اپنی قوم کے ساتھ ہر تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ ایسے رہنما ہی اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے حقیقی معنوں میں بے لوث خدمت کی مثال بن کر رہتے ہیں۔
یحییٰ السنوار کی زندگی اور شہادت نے یہ واضح کیا کہ فلسطینی رہنما اپنے عوام کے ساتھ کیسے جُڑے ہوئے ہیں۔ وہ صرف اپنے لوگوں کی قیادت نہیں کرتے بلکہ ان کے ہر دکھ، بھوک اور پیاس کو خود بھی محسوس کرتے ہیں۔ السنوار نے نہ صرف فلسطینی عوام کے درد کو سمجھا بلکہ اس درد کو اپنی ذات پر جھیل کر اپنی قیادت کو عوامی دلوں میں راسخ کر دیا۔ عوام کے ساتھ یکسانیت اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا یہ طرز عمل اس بات کا عکاس ہے کہ حقیقی مقاومتی رہنما کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
ان کی زندگی اس فلسفے پر مبنی تھی کہ جب تک ایک رہنما اپنے لوگوں کی طرح جینے کا عزم نہیں کرتا، تب تک وہ ان کے مسائل کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکتا۔ یحییٰ السنوار نے جس طرح اپنی زندگی کو عوامی جدوجہد میں شامل کیا، اس سے فلسطینی عوام میں امید اور حوصلہ پیدا ہوا۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا رہنما ان کے ساتھ محض زبانی حمایت نہیں بلکہ عملی طور پر ان کے شانہ بشانہ ہے۔
مزید برآں، یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے رہنما اپنے عوام کے لیے قابلِ فخر ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات اور آرام و آسائش کو چھوڑ کر ایک ہی مقصد کے لیے جیتے ہیں، یعنی اپنی قوم کی آزادی۔ السنوار نے ان تمام مشکلات کو جھیل کر یہ پیغام دیا کہ فلسطینی قوم اور اس کے رہنما ایک متحد اور پختہ عزم کے ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہی وہ رہنما ہیں جو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرتے ہیں کہ فلسطینی قوم محض مظلوم نہیں بلکہ عزم و حوصلے سے سرشار ہے۔ ایسے لیڈر ہی دشمن کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بن جاتے ہیں، جو نہ اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ اپنی قوم کی امیدوں کو ٹوٹنے دیتے ہیں۔
جس مقاومتی تحریک میں یحییٰ السنوار جیسے بلند عزم و حوصلے والے رہنما شامل ہوں، اسے مٹانا ناممکن ہے۔ یہ وہ پختہ فکر و فلسفہ ہے جو نہ صرف مقاومت کی روح کو زندہ رکھتا ہے بلکہ اسے مزید قوّت کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ یحییٰ السنوار کی رہنمائی ہر چیلنج کا بہادری سے سامنا کرنے کا عزم عطا کرتی ہے، جو ان کی قوم کے حوصلے کو بلند کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ان کی قیادت میں، مقاومت کا ہر لمحہ ایک نئی قوّت کے ساتھ ابھرتا ہے، جو ہر مشکل کو حوصلے سے جھیلنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔