تجزیہ نگار: سید شجاعت علی کاظمی
حوزہ نیوز ایجنسی| عالمی سیاست میں تیزی سے بدلتی ہوئی صف بندیاں اس وقت مشرق وسطیٰ، ایشیا اور مغرب کے تعلقات کو ازسرِ نو تشکیل دے رہی ہیں۔ ایران، چین، روس اور دیگر غیر مغربی قوتوں کے ابھرتے کردار نے نہ صرف مغربی بلاک کے یکطرفہ تسلط کو چیلنج کیا ہے بلکہ مسلم دنیا کے داخلی توازن کو بھی نئی سمت دے دی ہے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے پورے خطے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ جولانی حکومت کی موجودگی نے شام کو مختلف قوتوں کا میدانِ کشمکش بنا رکھا ہے۔ روس جو اب تک شام میں اسد حکومت کا مضبوط حامی تھا، اب نئی حکومتی اسٹرکچر کے حوالے سے گریزاں مگر محتاط پالیسی اپنائے ہوئے ہے، تاکہ اس کا اسٹریٹجک اثر باقی رہے۔ ترکی، جو ماضی میں شمالی شام میں روسی دباؤ کا سامنا کرتا رہا، اب قبرص کے تنازعے اور اندرونی معاشی دباؤ کے باعث مزید دباؤ میں ہے۔
دوسری طرف، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بظاہر سفارتی طور پر چین، روس اور ایران سے قریبی روابط قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے بنیادی اسٹرکچرز اور مفادات اب بھی امریکہ اور یورپ سے وابستہ ہیں۔ یمن میں انصار اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت، اور ایران سے اس کے مضبوط تعلقات نے سعودی عرب کے سکیورٹی بیلنس کو عدم توازن میں ڈال دیا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ گہری ہوتی شراکت اور امریکہ میں ریپبلکن و ڈیموکریٹک حلقوں کے اندرونی تضادات، ان کے سفارتی امکانات کو ایک نازک مرحلے میں لے جا رہے ہیں۔
ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے تعلقات بالخصوص پاکستان، عراق، اور انصار اللہ یمن کے ساتھ اسٹریٹجک ہم آہنگی نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی مزاحمتی لائن کو مضبوط کیا ہے۔ حالیہ ایران-اسرائیل 12 روزہ جنگ نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ایران اب محض نظریاتی یا دفاعی قوت نہیں، بلکہ عملی اور فعال عسکری ردعمل دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران نے اس محدود مگر مؤثر جنگ میں نہ صرف اسرائیلی انٹیلیجنس اور دفاعی نظام کو بے نقاب کیا بلکہ حماس، حزب اللہ اور انصار اللہ کے اشتراک سے ایک مربوط مزاحمتی محاذ کی تشکیل کو عالمی سطح پر منوایا۔ یہ جنگ اسرائیل کے لیے عسکری، نفسیاتی اور سفارتی تینوں سطحوں پر ایک دھچکہ ثابت ہوئی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ مہینوں میں سفارتی، اقتصادی اور سیکورٹی سطح پر نمایاں قربت دیکھنے میں آئی ہے۔ چابہار اور گوادر بندرگاہوں کی باہمی ہم آہنگی، ایران کی CPEC میں دلچسپی، اور پاکستان کا ایران کے داخلی استحکام کے لیے مثبت رویہ اس تعلق کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کے دورۂ پاکستان نے نہ صرف دوطرفہ اعتماد کو مضبوط کیا بلکہ علاقائی توازن کے نئے امکانات بھی پیدا کیے ہیں۔ یہ پیش رفت نہ صرف ایران اور پاکستان کے دوطرفہ مفادات کو فروغ دے رہی ہے بلکہ خطے میں اسرائیل، اور خلیجی ریاستوں کے توازن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
اسی دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیوں کے تناظر میں امریکہ نے پاکستان کو ایک اہم پارٹنر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اقتصادی، ماحولیاتی، اور سیکیورٹی تعاون کے نئے دروازے کھل رہے ہیں، اور یہ شراکت مستقبل کی علاقائی و عالمی پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی مجموعی طور پر ایک زیادہ توازن پذیر، عملی اور خطے کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ سمت میں گامزن دکھائی دے رہی ہے، جو بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں پاکستان کو ایک فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔
چین کی عالمی پالیسی بالخصوص "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو" کے ذریعے مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، اور افریقی خطے میں نئی اقتصادی راہیں کھولنے کی کوشش، مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ روس، یوکرین جنگ کے پس منظر میں، روس کی مشرق وسطیٰ میں سفارتی اور دفاعی سرمایہ کاری اب اس کی بقا کی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔
ادھر امریکہ اور یورپ، جو کبھی مشرق وسطیٰ کے بلاشرکت غیرے فیصلہ ساز ہوا کرتے تھے، اب کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار ہیں۔ یوکرین جنگ، داخلی معاشی بحران، افریقی خطے میں چین اور روس کے بڑھتے اثرات، اور اسرائیل-غزہ تنازعہ میں ان کی متنازعہ پوزیشن نے ان کے اثرورسوخ کو کمزور کیا ہے۔ امریکہ کے اندر سیاسی تقسیم، اور یورپ میں بعض قوم پرست اور قدامت پسند رجحانات کے بڑھتے اثر نے پالیسی سازی کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔
اسرائیل، جو اب بھی مغرب کی مکمل پشت پناہی سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ انصار اللہ یمن، حماس، حزب اللہ، اور دیگر مزاحمتی قوتیں اس کے خلاف ایک نئے اسٹریٹجک اتحاد کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔
"جہان تغیر" کا یہ منظرنامہ کسی ایک خطے تک محدود نہیں۔ مشرق وسطیٰ کی ہلچل، چین و روس کی پالیسیوں کا ابھار، مغربی بلاک کی کمزوری، اور ایران-پاکستان تعلقات جیسے عوامل اس بات کی نوید دے رہے ہیں کہ دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ صف بندیاں محض طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات، مفادات، اور تزویراتی توازن پر استوار ہوں گی، اور جو بھی ریاست اس نئے توازن کو سمجھنے میں ناکام رہی، وہ عالمی بساط سے بتدریج خارج ہوتی جائے گی۔









آپ کا تبصرہ