جمعرات 15 مئی 2025 - 20:20
مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی نئی صف بندی: جنگ بندی، ہتھیاروں کی اجازت اور ٹرمپ کی ممکنہ شیطانی پالیسی

حوزہ/ دنیا ایک بار پھر تیزی سے بدلتی ہوئی سفارتی اور جنگی حکمتِ عملیوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کا جواب مستقبل کے عالمی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

تحریر: سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

دنیا ایک بار پھر تیزی سے بدلتی ہوئی سفارتی اور جنگی حکمتِ عملیوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کا جواب مستقبل کے عالمی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

آئیے انہی سوالات کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں:

1: کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک مستقل امن کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے یا یہ ماضی کی طرح محض وقتی سیاسی مجبوری ہے؟

پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول (LoC) پر جنگ بندی کی بحالی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، مگر تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ اور مفاداتی دائرے میں محدود رہے ہیں۔

کشمیر کا مسئلہ آج بھی بنیادی تنازعہ ہے، جس پر دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ جنگ بندی کے پیچھے عالمی طاقتوں — خاص طور پر چین، امریکہ اور خلیجی ریاستوں — کا دباؤ بھی کار فرما ہے۔ تاہم جب تک مسئلہ کشمیر مستقل حل نہیں ہوتا، یہ جنگ بندی بھی ماضی کی طرح وقتی اور سفارتی مجبوری ہی ثابت ہو سکتی ہے۔

2: سعودی عرب کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور شام کے ساتھ تعلقات میں نرمی کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا یہ خطے میں ایران کے اثر کو محدود کرنے کی کوشش ہے یا خطے میں نئی اسٹریٹجک صف بندی؟

حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت میں مسلسل اضافہ اور امریکہ و یورپ کی جانب سے اسلحے کی فروخت کی اجازت کا مقصد نہ صرف خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کنٹرول کرنا ہے، بلکہ شام میں جاری پراکسی جنگوں کا توازن بھی سعودی عرب کے حق میں لانا ہے۔

2024 میں سعودی عرب اور شام کے تعلقات کی بحالی — اور دمشق میں سعودی سفارت خانے کا دوبارہ کھلنا — ایک بڑی سفارتی تبدیلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اسلحہ کی فراہمی کے پس منظر میں یہ حکمتِ عملی کارفرما ہے کہ ایران کے حامی گروہوں، خاص طور پر حزب اللہ اور حوثی تحریک کا اثر کم کیا جا سکے اور سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں اپنی مرکزی حیثیت بحال رکھے۔

3: ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں حالیہ اقدامات کے بعد، ان کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ایران کے خلاف مزید دباؤ بڑھائیں گے، اسرائیل-سعودی تعلقات کی راہ ہموار کریں گے یا شام اور قطر کے ساتھ اقتصادی معاہدے تیز کریں گے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ڈیل میکنگ، جارحیت اور امریکی مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے۔

اب جب کہ ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے اور قطر کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے ہیں، اگلا قدم غالباً ایران کے خلاف پابندیوں اور سفارتی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔

ساتھ ہی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں دوبارہ تیز ہوں گی۔

ٹرمپ شام کی تعمیرِ نو میں بھی اقتصادی معاہدوں کے ذریعے امریکی کمپنیوں کے لیے راستے نکالیں گے تاکہ روس اور ایران کا اثر کم کیا جا سکے۔

خطے میں ان تینوں پیش رفتوں کا نتیجہ کیا ہوگا!

پاکستان-بھارت جنگ بندی، سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی اور شام سے تعلقات کی بحالی، اور ٹرمپ کی متحرک سفارت کاری — دراصل ایک بڑے اسٹریٹجک کھیل کے حصے ہیں۔

اس کھیل کا مقصد مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ اور ایران و چین کے اثر کو محدود کرنا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان فیصلوں کے اثرات پوری مسلم دنیا پر بھی پڑیں گے، جس کے لیے مسلم اقوام کو ہوشیاری، حکمت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha