امریکہ؛ سامراجی درندہ، مکّار شیطان اور امتِ مسلمہ کا خونی دشمن

حوزہ/ دنیا کی تاریخ میں اگر سب سے مکّار، عیار اور ظالم قوم کا نام لیا جائے، تو بلا جھجک امریکہ کا نام سرِ فہرست آئے گا۔ وہ ملک جو انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے جھوٹے دعوے کر کے پوری دنیا کو اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے، وہی ملک ہے جس نے عالمِ اسلام کو ذلیل، منتشر اور غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

تجزیہ نگار: سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کی تاریخ میں اگر سب سے مکّار، عیار اور ظالم قوم کا نام لیا جائے، تو بلا جھجک امریکہ کا نام سرِ فہرست آئے گا۔ وہ ملک جو انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے جھوٹے دعوے کر کے پوری دنیا کو اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے، وہی ملک ہے جس نے عالمِ اسلام کو ذلیل، منتشر اور غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

امریکہ نے کبھی کھلم کھلا اور کبھی درپردہ مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی۔ عراق، شام، افغانستان، لیبیا، فلسطین، یمن — کونسا خطہ ہے جہاں اس درندہ صفت ریاست نے آگ اور خون کی ہولی نہ کھیلی ہو؟

لیکن سب سے بڑی بدقسمتی یہ کہ امت مسلمہ کی بڑی اکثریت آج بھی اس دشمنِ اسلام کی مکاری کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

پاکستان — ایک ایٹمی اسلامی ریاست — بھی اس سامراج کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہاں کی حکومتیں ہمیشہ امریکہ کے اشارے پر ناچتی ہیں۔ کبھی فوجی آمریت، کبھی جمہوریت کا لبادہ، مگر ہر دور میں واشنگٹن کی غلامی۔

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کو امریکہ نے ثالثی کا ڈھونگ رچا کر استعمال کیا۔ ایک طرف جنگ کا شور، دوسری طرف سعودی عرب جیسے ملک سے اپنے ناپاک معاہدے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ امت مسلمہ جنگی شور میں الجھی رہے اور وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے شیطانی مقاصد پورے کرتا رہے۔

اور یہ سب اسی لیے ممکن ہوا کیونکہ پاکستانی عوام گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔

نعرے بازی، جذباتی تقریریں، اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز — یہی ان کا شعور ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ

ہم کب تک امریکہ کے غلام رہیں گے؟

کب تک ہمارے حکمران سامراج کے پٹھو بنے رہیں گے؟

کب تک ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی واشنگٹن کے ہاتھوں میں رہے گی؟

عوام اگر چاہے تو ہر زنجیر توڑ سکتی ہے۔ مگر افسوس، اس قوم کو اپنی اصلی دشمنی کا علم ہی نہیں۔

ہمارا اصل دشمن بھارت نہیں — بلکہ وہ امریکہ ہے، جو بھارت کو اسلحہ دیتا ہے، اسرائیل سے گٹھ جوڑ کراتا ہے، اور ہمارے حکمرانوں کو خرید کر اپنی چالیں چلتا ہے۔

یہی وقت ہے کہ امتِ مسلمہ ہوش میں آئے۔

اپنے اصل دشمن کو پہچانے۔

اس مکار امریکہ اور اس کے مقامی ایجنٹ حکمرانوں پر نفرین بھیجے۔

اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔

جب تک ہم بیدار نہیں ہوں گے، ہمارے ممالک تباہ ہوتے رہیں گے، ہمارے بچے یتیم ہوتے رہیں گے، اور ہمارے وسائل امریکہ اور اس کے چمچوں کے پیٹ بھرتے رہیں گے۔

نفرین ہے امریکہ پر، اس کی مکاری پر، اور ان غلام حکمرانوں پر جو اپنے دین، ملت اور وطن کا سودا کرتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سرحدی کشیدگی اچانک بھڑک اٹھی، جس نے بہت سوں کو حیرت میں ڈال دیا اور تجزیے اور تبصروں میں الجھایا۔ ٹی وی چینلز کے جنگجو تجزیہ کار اور سوشل میڈیا کے جنرلز اور ماہرین نے جلد ہی ایٹمی جنگ، تیسری عالمی جنگ اور قیامت کی پیش گوئیاں شروع کر دیں۔

مگر معاملے کو گہری اور غیر جانبدار نظر سے دیکھنے والوں نے ایسی خوفناک باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا، کیونکہ نہ تو کوئی حقیقی وجہ تھی اور نہ ہی حالات و اسباب ایسی کسی علاقائی جنگ کے آغاز کے لیے موجود تھے، جو تیزی سے بے قابو ہو سکتی تھی۔

کشمیر کا مسئلہ پرانا ہے اور ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی وجہ رہا ہے۔ مگر یہ مسئلہ ہمیشہ ایک قابو میں رکھی گئی آگ کی طرح، وقت آنے پر استعمال کے لیے سنبھال کر رکھا گیا۔ اس کے پیچھے ہمیشہ ایک چھپا ہوا عالمی کھلاڑی رہا ہے، جو مختلف خطوں میں ایسی ہی کئی متنازعہ صورتحال پیدا کرکے انھیں قابو میں رکھتا رہا ، جیسے آذربائیجان اور آرمینیا کا "کراباخ" مسئلہ، جزیروں اور سمندری حدود کے تنازعات اور سرحدوں کی کھینچا تانی۔

یہ پوشیدہ طاقت درحقیقت عالمی کارپوریٹ حکومت یا وہی "گلوبلائزیشن لابی" ہے، جس کا مقصد دنیا کو امریکی اور اینگلو سیکسن اقدار کے مطابق ڈھالنا ہے۔

دنیا پر مسلط یہ حکمران اور قابض نظام اب اپنے ظلم، جنگوں اور بربادیوں میں حد سے بڑھ گیا ہے، جس کے خلاف خود اسی کے گھر میں مزاحمت کی ایک لہر اٹھی ، اور امریکہ میں جسے "ٹرمپ ازم" کہا جاتا ہے، اس کی پہلی مدت ناکام کرنے کے بعد اب یہ تحریک پہلے سے زیادہ ہوشیار، بااثر اور طاقتور بن چکی ہے۔

جب ٹرمپ نے امریکہ میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کیا، تو گلوبلائزیشن لابی نے دنیا بھر میں چھپی ہوئی کشیدگی کو دوبارہ بھڑکانے کی کوشش کی، جیسا کہ یوکرین، فلسطین، یمن، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں کیا ، تاکہ امریکہ اور ٹرمپ کو الجھایا جا سکے، اور ہتھیاروں کی فروخت اور پرانی اسلحہ ڈپو کی صفائی کی جا سکے، جن کی ناکامی فلسطین اور یمن کی جنگوں میں واضح ہو چکی تھی۔

ٹرمپ ایک تجربہ کار سیاستدان اور جنگجو ہے، جو جانتا ہے کہ دنیا کی بیشتر جنگیں اور بحران کسی کے فائدے کے لیے بھڑکائے جاتے ہیں۔ اور جب اسے یہ احساس ہوا کہ خود اسے بھی سازش کے تحت گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے، تو اس نے فیصلہ کن قدم اٹھایا اور جنگ کے شعلوں کو بجھانے کا حکم دے دیا۔

اور جیسے ہی اس کا حکم آیا، جنگ بند ہو گئی ، نہ کوئی مزاحمت ہوئی نہ تاخیری حربے۔ اس سے ٹرمپ کے اثر و رسوخ اور گلوبلائزیشن لابی کی کمزوری اور اس کے آلہ کاروں کی ناتوانی ظاہر ہو گئی۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے حکم سے، ٹرمپ نے گلوبلائزیشن لابی کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔ اور یہ محض اتفاق نہیں کہ ٹرمپ نے یہ کامیابی اسی وقت حاصل کی، جب وہ اسرائیل کی غزہ جنگ میں نتن یاہو کے منصوبوں پر کاری ضرب لگا چکا تھا، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا دورہ کر چکا تھا، اور اسرائیلی دباؤ کے باوجود محمد بن سلمان کو امن کی یقین دہانی اور سول نیوکلیئر پروگرام کی اجازت دے چکا تھا۔

اسی دوران ایران کے ساتھ چوتھے مرحلے کی ایٹمی مذاکرات میں پیشرفت اور چین سے تعلقات میں ہم آہنگی کی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی تھیں۔

ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق نئی پالیسی، امریکہ کی جنگی حکمت عملی کی تبدیلی ،

یعنی روایتی فوجی جنگوں کی جگہ معاشی و تجارتی محاذ آرائی کا انتخاب اب امریکہ کو ایک مختلف ریاست میں بدل رہا ہے۔

اس سے دنیا کے پرانے تنازعات، جیسے "کراباخ" اور "کشمیر"، اور فلسطین کے مسئلے کو بھی نیا حل دینے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔

ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق، کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے کر حل ہو سکتا ہے، اور فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کے قومی و تاریخی حق کی واپسی کے بغیر حل نہیں ہوگا۔

کیونکہ ثابت ہو چکا ہے کہ قومی حق نہ تو تقسیم کے قابل ہے اور نہ کسی سودے بازی کا متحمل۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہر حق اپنے اصل وارث کو لوٹایا جائے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha