بدھ 23 اپریل 2025 - 11:37
دہشت گرد ٹولوں کی اصل حقیقت!

حوزہ/ آج کے عالمی منظرنامے میں اگر ہم داعش، طالبان اور سپاہ صحابہ جیسے گروہوں کا جائزہ لیں تو ایک عجیب سی مماثلت سامنے آتی ہے؛ ان کے نعرے، اندازِ تبلیغ، دشمنوں کا انتخاب اور دہشت گردانہ کارروائیاں ایک جیسی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ یا یہ کوئی گہری سازش ہے جس کے تانے بانے کہیں اور جا کر ملتے ہیں؟

تحریر: سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی| آج کے عالمی منظرنامے میں اگر ہم داعش، طالبان اور سپاہ صحابہ جیسے گروہوں کا جائزہ لیں تو ایک عجیب سی مماثلت سامنے آتی ہے؛ ان کے نعرے، اندازِ تبلیغ، دشمنوں کا انتخاب اور دہشت گردانہ کارروائیاں ایک جیسی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ یا یہ کوئی گہری سازش ہے جس کے تانے بانے کہیں اور جا کر ملتے ہیں؟

میری سوچ کہتی ہے کہ ان تینوں گروہوں کی جڑیں دراصل امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ممالک سے جا کر جُڑتی ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جو بظاہر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے دار ہیں، مگر عملی طور پر ایسے گروہوں کی پرورش کرتے دکھائی دیتے ہیں جو امت مسلمہ کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔

1. نظریاتی ہم آہنگی — ایک خطرناک ذہنیت

داعش، طالبان اور سپاہ صحابہ سب کا ایک ہی انداز ہے: تکفیر، یعنی جو ان کے نظریے سے اختلاف کرے، وہ واجب القتل ہے۔ یہ سوچ اسلام کی اصل تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ ان کا اسلام وہ نہیں جو رحمۃ للعالمین نے سکھایا، بلکہ وہ ہے جو دشمنانِ اسلام نے گھڑ کر ہمارے درمیان داخل کیا تاکہ ہم خود اپنے خلاف تلوار اٹھائیں۔

2. اہل بیت (ع) دشمنی — ہدف ہمیشہ تشیع

ان گروہوں کا اصل ہدف ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے رہے ہیں۔ چاہے وہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام ہوں، پاراچنار میں دھماکے ہوں یا عراق و شام میں زائرین کا خون — ان تمام جرائم میں انہی گروہوں کا ہاتھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے: کیا یہ واقعی "اسلام" کے خدمت گزار ہیں یا اسلام کے سب سے اعلیٰ نمونہ، اہل بیت کے دشمن؟

3. مغربی خاموشی — ایک سوالیہ نشان

داعش جیسا خونی گروہ جب عراق اور شام میں خلافت کے نام پر قتلِ عام کر رہا تھا، تو امریکی فضائیہ حیرت انگیز حد تک خاموش تھی۔ طالبان کے اقتدار میں واپس آنے پر عالمی طاقتیں صرف "تشویش" کا اظہار کرتی رہیں۔ سپاہ صحابہ جیسے گروہوں پر حکومتی پابندی ہوتی ہے مگر پھر بھی وہ نام بدل کر کام جاری رکھتے ہیں۔

4. وہابیت — فکری غذا اور مالی مدد

وہابی فکر نے ان گروہوں کو نظریاتی غذا فراہم کی ہے۔ وہی سوچ جو محمد بن عبد الوہاب نے عام کی، آج انہی گروہوں میں جنون کی شکل میں موجود ہے۔ طالبان سے لے کر سپاہ صحابہ تک، سب اسی فکر سے جنم لیتے ہیں۔ ان کی مالی مدد، تربیت، اور نظریاتی رہنمائی سعودی نظام نے فراہم کی — اور اس نظام کے پیچھے ہمیشہ امریکی آشیرباد رہی۔

5. امریکہ اور غاصب اسرائیل کے مفادات کا تحفظ

ان گروہوں کی دہشت گردی سے سب سے زیادہ فائدہ دشمنانِ اسلام کو ہوتا ہے:

فلسطین پر اسرائیلی مظالم پس پردہ چلے جاتے ہیں۔

اسلامی اتحاد کا خواب بکھر جاتا ہے۔

امتِ مسلمہ داخلی جنگوں میں الجھ جاتی ہے۔

یہی وہ ہدف تھا جس کے لیے ایسے گروہ پیدا کیے گئے — تاکہ مسلمان کبھی ایک نہ ہوں، اور ان کے اصل دشمن کبھی بے نقاب نہ ہوں۔

یہ گروہ اسلام کے نام پر اسلام ہی کو بدنام کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا کوئی تعلق محمد و آل محمد کے دین سے نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کے ایجنڈے سے ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان سازشوں کو سمجھیں، اور ان سے بچ کر اپنے عقائد، اپنی نسلوں اور اپنے اتحاد کا تحفظ کریں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha