ہزارہ کوئٹہ کی 150 سالہ تاریخ اور ثقافت

حوزہ/ 1892 میں عبدالرحمٰن اور فاشسٹ قوم کی طرف سے کی گئی منظم نسل کشی کے بعد ہزارہ لوگوں کی مہاجرت شروع ہوئی، جو نہ صرف افغانستان کے اندر ہوئی، بلکہ افغانستان سے باہر بھی ہوئی۔

تحریر: ظفر مہدی اقبالی

حوزہ نیوز ایجنسی| 1892 میں عبدالرحمٰن اور فاشسٹ قوم کی طرف سے کی گئی منظم نسل کشی کے بعد ہزارہ لوگوں کی مہاجرت شروع ہوئی، جو نہ صرف افغانستان کے اندر ہوئی، بلکہ افغانستان سے باہر بھی ہوئی۔

افغانستان سے باہر ہزارہ لوگوں کی مہاجرت تین بڑے علاقوں میں ہوئی:

1۔ وسطی ایشیا
2۔ مشہد
3۔ برصغیر (خاص طور پر کوئٹہ)

البتہ، ہزارہ لوگوں کی برصغیر کی طرف ہجرت سے پہلے کوئٹہ میں ایک مختصر قیام رہا، کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے اس لیئے آیندہ کسی موقعے پر انشاءاللہ اس پر تفصیل سے بات کی جائے گی۔

کوئٹہ میں ہزارہ کی پہلی اجتماعی آبادی

ہزارہ لوگوں کی کوئٹہ میں پہلی اجتماعی آبادی "بابو محلہ" تھی۔ بابو محلہ کہاں ہے؟ بابو محلہ امام بارگاہ کلان کے اردگرد واقع تھا۔ ہزارہ لوگ ایک عرصے تک بابو محلہ میں رہتے رہے، لیکن بدقسمتی سے 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے اس علاقے کو تباہ کر دیا۔ اس زلزلے کی بعد باقی ماندہ آبادی کو "نچاری کیمپ" میں منتقل کیا گیا، جو متاثرین کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں آبادی کے بڑھنے اور مہاجرت کے باعث ہزارہ آبادی کی شکل اور بھی وسیع ہو گئی۔ یہ بات بھی مفصل طور پر بیان کی جائے گی کہ کس طرح اور کب مہاجرتیں ہوئیں۔

ہزارہ کوئٹہ کی ثقافتی صورتحال

جب لوگ کوئٹہ منتقل ہوئے تو اگرچہ ان کا اپنے ہمسایہ لوگوں کے ساتھ اچھا تعلق رہا، لیکن چونکہ ان کے قومی اور مذہبی پہلو ہمسایہ قوموں سے مختلف تھے، اس لیے انہیں ایک ایسا مرکز چاہیے تھا جہاں وہ خود کو منسلک محسوس کر سکیں۔ ہزارہ کوئٹہ نے بہت جلد ثقافتی اور تہذیبی طور پر برصغیر سے تعلق قائم کر لیا، جو ایک اہم اسٹریٹجک موڑ تھا ہزارہ قوم کیلئے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ اس کے آثار اور ثبوت واضح ہیں۔

اگرچہ وہ کوئٹہ میں رہتے تھے، لیکن ثقافتی طور پر وہ لکھنؤ، جھنگ اور بھکر سے جڑے ہوئے تھے۔ مثلاً، ان کی عزاداری افغانستان اور ایران سے مختلف ہے، حالانکہ ان کی قومی اور لسانی مماثلت وہاں کی آبادی سے ہے۔ ان کے رسم و رواج زیادہ تر برصغیر سے متاثر ہیں، یہاں تک کہ کھانے پکانے کے طریقے بھی برصغیر کے مطابق ہیں۔

کوئٹہ میں 150 سالہ ثقافت

ہزارہ کوئٹہ نے طویل عرصے میں ایک منفرد ثقافت اور کلچر تیار کیا، جو دیگر ثقافتوں سے مختلف ہے۔ ان کی 150 سالہ تاریخ اور اصل اہمیت ہزارہ کوئٹہ کے لیے خاص ہے۔

حالیہ تبدیلیاں اور ثقافتی حملے

ریڈیو ہزارگی کے بعد، خاص طور پر داؤد حکومت اور افغانستان کی جنگوں کے دوران، ہزارہ کوئٹہ کی ثقافت پر زبردستی تبدیلیاں لانے کی کوششیں ہوئیں۔
مثلاً، قوم اور مذہب کی بنیاد پر جنگ شروع کی گئی، دینی اقدار پر حملے کیے گئے، اور ہزارہ معاشرے کی شناخت اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، جو کہ الحمدللہ ناکام رہی۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جسے بعد میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔

ثقافتی حملے کی دوسری لہر

چالیس سال پہلے ایک گروہ نے ہزارہ معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، اور پھر دوبارہ ایک ایک بار پھر ایک نئے انداز میں اس کام کو شروع کیا گیا، جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔

یہ کوشش ہزارہ ثقافت کو مسخ کرنے اور ایک نقلی ثقافت کو مسلط کرنے کی ہے، جس کا ہزارہ کوئٹہ کی اصلی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔

گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان میں جو ثقافت بنی ہے، اس کا ہزارہ کوئٹہ کی ثقافت سے کوئی تاریخی تعلق نہیں۔ اگرچہ اگر کوئی اس نقلی ثقافت کو قبول کرنے پر اصرار کرے تو یہ مشکل نہیں، لیکن واضح ہے کہ یہ ثقافت کوئٹہ کے لوگوں کی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ہزارہ کوئٹہ کی ثقافت سے کوئی تعلق ہے۔

ہزارہ کوئٹہ اپنی تہذیب اور ثقافت کا بھرپور دفاع کرتا ہے اور کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان کی 150 سالہ تہذیب کو مسخ کرے۔

ان شاء اللہ اگر زندگی رہی تو وقتاً فوقتاً ہزارہ کوئٹہ کے اصول، اقدار اور شخصیات کے بارے میں تفصیل سے بات کروں گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha