تحریر: مولانا اجمل حسین قاسمی
حوزہ نیوز ایجنسی। وہابیت تمام اہل سنت اور شیعہ مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہلبیت علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام سے استغاثہ اور توسل کرنے پر کافر اور مشرک قرار دینے کے ساتھ ساتھ اہل بدعت اور واجب القتل بھی قرار دیتا ہے۔ ہم اس مقالے میں قرآنی آیات اور اہلسنت کے معتبر کتب سے وہابیت کے اس شبہے کا جواب پیش کریں گے اور وہابیت کی جانب سے توسل و استغاثہ کے رد میں دلیل کے طور پر پیش کی جانے والی قرآنی آیات کے متعلق اہلسنت کے بزرگ مفسرین کے نظریات اور اہلسنت کے معتبر کتب سے توسل و ؟استغاثہ کا جواز ,،پیش کریں گے۔ وہابی کہتے ہیں کہ : جب خدا ہماری شہہ رگ سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور ہماری دعا کو قبول کرتا ہے۔ ہمیں اپنے علاوہ دوسروں سے توسل کرنے سے منع کیا ہے۔ پس خدا کے علاوہ کسی اور کو پکارنا اور توسل کرنا غیر خدا کی عبادت اور شرک ہے۔ جبکہ توسل کرنا قرآن کریم، شیعہ اور اہلسنت کی معتبر کتب سے ثابت ہے۔
شیعہ اور اہلسنت مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ :
زندگی، موت، بیماروں کو شفا دینا، حاجات کی برآوری اور رزق و روزی و ۔۔۔ یہ سب اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ وہی ہے جو بیماروں کو شفا دیتا ہے، حاجات کو پوری کرتا ہے، انسانوں رزق و روزی دیتا ہے۔ لیکن خداوند کریم نے ان سب امور تک پہنچنے کے لئے سبب اور وسیلہ قرار دیا ہے۔ جیسے ہم سب کو معلوم ہے کہ خدا ہی رزاق ہے اور وہی انسانوں کو رزق دیتا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّهِ الْمَتِینُ(8)۔ ترجمہ : یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، بڑی پائیدار طاقت والا ہے۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(9)۔ ترجمہ: اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ خدا کے علاوہ اور رازقین بھی ہیں وہ رزق کیلئے سبب ہیں لیکن اصلی رازق خدا ہی ہے۔
کائنات کا انتظام خدا کے ہاتھ میں ہے:
یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَی الْأَرْضِ(10)۔ ترجمہ: وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے۔ لیکن دوسری آیت میں اللہ تعالی ملائکہ سے یہ کام لے رہا ہے : فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً(11)۔ ترجمہ : پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔
اس دنیا میں ہر چیز سبب )وسیلہ( کی محتاج ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے بھی اپنے تقرب کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ(12)۔ ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے وسیلہ))توسل( کو کامیابی کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآنی آیت میں وسیلہ )توسل( کے بارے میں اہلسنت علماء کے نظریات :
اہلسنت علماء وسیلہ کو عام معنی میں لیتے ہیں جس میں اعمال اور اشخاص دونوں شامل ہیں۔ اس کے برخلاف وہابی کہتے ہیں کہ وسیلہ کا معنی خاص ہے جس میں صرف اعمال شامل ہیں۔
سنی عالم دین علامہ محمد زاہد کوثری اپنی کتاب محق التقول فی مسالہ التوسل میں لکھتے ہیں کہ : قرآنی آیت میں وسیلہ عام ہے جس میں اعمال اور اشخاص دونوں شامل ہوتے ہیں۔ علامہ حنفی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : ہم پیغمبر کے ذریعے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اذ ھوالوسیلۃ العظمی(13)
علامہ سخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ : سیدنا محمد وسیلتنا و ذخرنا فی الشدائد والنوازل۔ ترجمہ : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مشکلات میں ہمارے لئے وسیلہ ہیں۔ حتی وہابیوں کے امام ابن قیم اپنی کتاب طریق الھجرتین میں لکھتے ہیں کہ : انبیاء کے ذریعے ہی خدا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ فھم اقرب الخلق الیہ وسیلہ۔ ترجمہ : انبیاء علیہم السلام ، اللہ تعالیٰ کے قریب ترین وسیلہ ہیں۔
مندرجہ بالا اہلسنت علماء کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآنی آیت میں وسیلہ سے مراد اعمال و اشخاص دونوں شامل ہیں۔ وہابیوں کا ادعا کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ وسیلہ سے مراد صرف اعمال صالح ہیں باطل اور مردود ہے۔
وسیلہ کے متعلق قرآن کریم کی دوسری آیت :
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ(14)۔ ترجمہ : جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے۔ مشرکین حضرت عیسی، انبیاء اور ملائکہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ خدا نے کہا : جن کی تم لوگ عبادت کرتے ہو وہ خود فقیر بندے ہیں اور خدا سے نزدیک ہونے کے لئے وسیلے کی تلاش میں ہیں۔ یہاں قرآن کریم وسیلے کی تائید کررہا ہے۔
اہلسنت کے بزرگ عالم دین علامہ آلوسی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : جن مشرکین نے حضرت عیسی اور ملائکہ کی عبادت کی ہے ان کا وسیلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔ اور ہمارے پیغمبر تمام موجودات کے لئے وسیلہ ہیں۔ پس وسیلہ میں اشخاص اور اعمال دونوں شامل ہیں۔ اورخدا کے سب سے قریب ترین وسیلہ محمد و آل محمد علیہ السلام ہیں(15)۔
وسیلہ )توسل( کے متعلق قرآن کریم کی تیسری آیت :
کَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى ﭐلَّذِينَ کَفَرُواْ(16)۔ ترجمہ : وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے۔
اہلسنت عالم دین علامہ واحدی اپنی کتاب اسباب النزول میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ : یہودی جنگوں میں شکست کھاتے تھے، ان کے بزرگوں نے جنگ سے پہلے پڑھنے کے لئے انہیں یہ دعا تعلیم دی:اللهم إنا نسألك بحق النبي الأمي الذي وعدتنا أن تخرجه آخر الزمان إلا نصرتنا علیھم۔ یہودی پیغمبر اکرم کی ولادت سے قبل ہی آپ کے ساتھ توسل کرکے جنگ میں کامیابی حاصل کرتے تھے۔
اہلسنت عالم دین علامہ دمشقی کہتے ہیں کہ : یہودی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن ہیں وہ آپ کے ساتھ توسل کرکے اپنی حاجات پوری کرتے تھے، ہرچند ولادت سے قبل۔ لیکن مسلمان آپ کی ولادت اور آپ پر ایمان لانے کے بعد کیسے اپنی حاجات آپ کے وسیلے سے پوری نہیں کرسکتے؟ پھر کہتا ہے کہ : توسل کے منکرین )وہابی( یہودیوں سے بھی پست ہیں۔
وسیلہ )توسل( کے متعلق قرآن کریم کی چوتھی آیت :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا(17)۔ ترجمہ : اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔ اہلسنت علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اکرم کی زندگی میں اور وفات کے بعد دونوں طرح کے توسل پر دلالت کرتی ہے۔ وہابی جن آیات کو اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کے لئے تفسیر کرتے ہیں ان کا توسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ توسل کرنا ایک قرآنی، روائی اور اسلامی عقیدہ ہے جو اسلام سے قبل بھی موجود تھا۔ اس حوالے سے اہلسنت اور شیعہ علماء متفق القول ہیں۔ لیکن وہابی استغاثہ اور توسل کی وجہ سے اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں۔
اہلسنت عالم دین امام سبکی نے اجماع اور تواتر کا ادعا کیا ہے کہ : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ توسل، تشفع اور تبرک کرنا انبیاء اور سلف صالح کا فعل اور جائز ہے کہ پیغمبر کی ولادت سے قبل، آپ کی زندگی میں، وفات کے بعد اور قیامت کے دن آپ کے ساتھ توسل کیا جائے(18)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرکے نابینا کا شفایاب ہونا اور یا محمد کہنا:
عثمان بن حنیف روایت کرتا ہے کہ ایک دن ایک نابینا شخص رسول خدا کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: خدا سے میرے لئے سلامتی مانگیں، رسول خدا نے فرمایا: اگر چاہتے ہو تو آپ کیلئے دعا کرتا ہوں، اگر چاہتے ہو تو صبر کرو جو آپ کیلئے بہتر ہے۔ نابینا شخص نے کہا: خدا سے میری شفایابی کی درخواست کریں۔ پس رسول خدا نے انہیں حکم دیا: کہ وضو کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے: خدایا میں آپ سے درخواست کرتا ہوں، اور آپ کی طرف توجہ کرتا ہوں آپ کے پیغمبر محمد ، پیغمبر رحمت کے واسطے؛ یا محمد اسی طرح میں اپنی حاجت میں آپ کے واسطے سے پروردگار کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ برآوردہ ہو، خدایا اسے میرا شفیع قرار دے(19)۔
اہلسنت فقیہ علامہ شوکانی نابینا شخص کی جانب سے پیغمبر اکرم سے توسل کے متعلق روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ، حاکم نیشابوری اور ترمذی جیسے ائمہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے۔ اور یہ حدیث رسول خدا سے توسل کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔اس اعتقاد کیساتھ کہ خدا وند متعال کیجانب سے حاجات پوری کرنے والا ہے، جو بھی وہ چاہے ہوجاتا ہے اور جو نہ چاہے وہ واقع نہیں ہوتا ہے(20)۔
ایک شخص اپنی حاجت لئے مکرر عثمان بن عفان کے پاس آتا تھا، لیکن عثمان اس کی خواہش پر کوئی توجہ نہیں کرتا تھا۔ ایک دن راستے میں عثمان بن حنیف جو کہ خود راوی ہے سے ملاقات ہوئی تو اس سے شکایت کی۔ عثمان بن حنیف نے اسے کہا: پانی کا انتظام کرکے وضو کرنے کے بعد مسجد چلے جاو اور دو رکعت نماز پڑھو، اور نماز پڑھنے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے کہو: اللّهم انی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک محمدٍ نبیّ الرحمه، یا محمد انی اتوجه بک الی ربی فتقضی لی حاجتی۔ اس کے بعد اپنی حاجت بیان کرو۔ عثمان بن حنیف کہتا ہے کہ : اس شخص نے وہ اعمال انجام دینے کے بعد عثمان کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ دربان اسے عثمان بن عفان کے پاس لے گیا، عثمان نے اس کا احترام کرنے کے بعد اس کی خواہش پوری کی اور کہا : میں ابھی ہی تمہاری حاجت کی طرف متوجہ ہوا، آج کے بعد جو بھی حاجت ہو ہمارے پاس آنا۔۔۔ عثمان بن حنیف نے کہا: یہ حکم میری طرف سے نہیں تھا بلکہ ایک دن پیغمبر اکرم کی خدمت میں تھا کہ ایک نابینا شخص آیا اور اپنی نابینائی کی شکایت کی۔ آنحضرت نے پہلے صبر کی تلقین کی جسے اس نے قبول نہیں کیا۔۔۔(21)
اہلسنت عالم دین علامہ محمد عمر سربازی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ : نابینا شخص کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے توسل والی داستان سے آنحضرت کی وفات کے بعد بھی ان کی ذات سے توسل کرنا ثابت ہوتا ہے(22)۔
انبیاء کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ توسل :
اہلسنت کے برجستہ عالم دین سمہودی کہتے ہیں کہ: جان لو کہ رسول خدا سے ، ہر حال میں، ان کی خلقت سے قبل، خلقت کے بعد، پیغمبر کی زندگی میں، برزخ کی زندگی میں اور قیامت کے سخت مراحل میں استغاثہ اور شفاعت کی درخواست کرنا سلف صالح ، پیغمبران اور الہی رسولوں کی سیرت ہے(23)۔
اہلسنت کے بزرگان کی جانب سے ائمہ بقیع کیساتھ توسل :
ابن فرحون مالکی جن کا شمار برجستہ فقہاء میں ہوتا ہے اور آٹھویں صدی میں مدینہ کے قاضی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی نے ان کی فقہی کتب کو بہترین قرار دیا ہے۔ انہوں نے ائمہ بقیع کی زیارت اور ان سے توسل کو جائز قرار دیا ہے۔ اور حاجات کی برآوری کیلئے ائمہ بقیع سے توسل کی نصیحت کی ہے(24)۔
اہلسنت علماء کی جانب سے استغاثہ اور توسل کا عملی جواز:
میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوچکا تھا کہ جس کا علاج ڈاکٹرز نہیں کرسکے تھے۔ اور کئی سال میں اس بیماری کا شکار تھا۔ اٹھائیس جمادی الاول کی شب سال 893 کو مکہ میں)خدا اس کی عزت میں اضافہ کرے( پیغمبراکرم کے ساتھ استغاثہ کیا،بغیر کسی محنت اور غم کے میری سلامتی کیلئے مجھ پر کرم ہوا۔ جب میں سورہا تھا تو ایک شخص آیا ، ان کے پاس ایک کاغذ تھا جس میں وہ لکھ رہا تھا کہ یہ دوا احمد بن القسطلانی کی بیماری کیلئے حضرت شریف کی طرف سے ہے پیغمبر اکرم کے اذن کے بعد۔ اس کے بعد میں بیدار ہوا اور بیماری کی کوئی علامت خود میں نہیں پائی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی برکت سے مجھے شفایابی ملی(25)۔
اموات سے استغاثہ کی مشروعیت اہلسنت کے نزدیک:
بزرگ اہلسنت عالم دین ابن خلکان اپنی کتاب وفیات الاعیان میں نورالدین نامی ایک سنی بادشاہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : اہل دمشق کے ایک گروہ سے سنا ہے کہتے ہیں کہ : نورالدین کی قبر کے نزدیک دعا مستجاب ہوتی ہے، میں نے یہ کام انجام دیا جوکہ درست اور صحیح تھا(26)۔
آلوسی اپنی تفسیر کی معروف کتاب میں توسل اور وسیلہ کے مسئلے پر تحقیق کے بعد لکھتا ہے کہ : میں پیغمبراکرم(ص) کی قدر و منزلت کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینے میں )چاہےپیغمبراکرم(ص) زندہ ہوں یا مردہ( کوئی مانع و مشکل نہیں دیکھتا۔ کیونکہ پیغمبر کیساتھ توسل کرنا ، خدا کی پیغمبر کیساتھ محبت کی طرف پلٹتا ہے اور یہی محبت حاجات کی برآوری کا سبب بنتی ہے۔ آگے کہتا ہے کہ : خدا کی قسم پیغمبر اکرم کی قدر و منزلت میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے(27)۔
اہلسنت کی تفسیری کتب میں آیات من دون اللہ:
وہابیوں نے اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کو کافر قرار دینے کیلئے آیات من دون اللہ کیساتھ تمسک کیا ہے۔ ذیل میں ہم اہلسنت تفاسیر سے ان آیات کے متعلق اہلسنت علماء کے نظریات بیان کرتے ہیں۔
علامہ آلوسی سورہ اعراف کی آیات نمبر 191 سے 195 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ : اصنام اور بتوں کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اور یہ کہ خدا نے ان کے اعتقاد کی وجہ سے بتوں کو عقلاء کی ضمیر کیساتھ بیان کیا ہے۔ کیونکہ وہ معتقد ہیں کہ بت خدا ہیں(28)۔
ابن کثیر دمشقی سورہ یونس کی آیت نمبر 18 کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : یہ آیت اصنام اور بتوں کے حق میں نازل ہوئی ہے(29)۔
قرطبی سورہ یونس کی آیت نمبر 18 کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : یہ آیت اصنام اور بتوں کے حق میں نازل ہوئی ہے(30)۔
شیخ صابونی سورہ یونس کی آیت نمبر 18 کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : یہ آیت اصنام اور بتوں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ خدا پیغمبر کی جانب خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ : جو مشرکین بتوں اور اصنام کی پرستش کرتے ہیں وہ شفاعت، اپنی طرف نفع پہنچانے اور ضرر کی دفع کرنے کی نیت سے پرستش کرتے ہیں۔ جان لو کہ یہ ان کی جہالت کی وجہ سے ہے کیونکہ نہ وہ شافع ہوسکتے ہیں، نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ضرر دفع کرسکتے ہیں(31)۔
محمد بن جریر طبری سورہ یونس کی آیت نمبر 18 کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : یہ آیت اصنام اور بتوں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ خدا پیغمبر کی جانب خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ : جو مشرکین بتوں اور اصنام کی پرستش کرتے ہیں، جان لو کہ یہ نہ ان سے کوئی آفت اور ضررر دفع کرسکتے ہیں نہ مانع بن سکتے ہیں، دنیا اور آخرت میں ان کیلئے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے(32)۔
ابن عاشور سورہ حج کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : اصنام اور بتوں کی پرستش کرنے والے مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ جو بھی غیرخدا ہے اس کی پرستش و عبادت کرنا باطل ہے(33)۔
حرف آخر:
وہابی جن آیات کو دلیل بناکر اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ بت پرست کفار کے متعلق نازل ہوئی ہیں جن کا توسل کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ کوئی بھی سنی یا شیعہ مسلمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ اور اولیاء کو خدا کا شریک نہیں سمجھتا۔ بلکہ سب مسلمان کہتے ہیں کہ : اشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ ا وَ رَسُولُهُ۔
حوالہ جات:
1. سورہ ذارعات، آیت نمبر 54۔
2. سورہ جمعہ، آیت نمبر 11۔
3. سورہ جمعہ، آیت نمبر 5۔
4. سورہ نازعات، آیت نمبر 5۔
5. سورہ مائدہ، آیت نمبر 35۔
6. سلک الدرر جلد 1 صفحہ نمبر 2
7. سورہ اسراء، آیت نمبر 57۔
8. روح المعانی کی جلد نمبر 15صفحہ نمبر 126
9. سورہ بقرہ، آیت نمبر 89
10. سورہ نساء، آیت نمبر 64
11. سبل الہدی والرشاد، جلد 12 صفحہ 403
12. مسند الامام احمد بن حنبل، جلد 18صفحہ479
13. تحفۃ الذاکرین، شوکانی، صفحہ 209
14. الروضۃ الدانی )المعجم الصغیر (، طبرانی، جلد 1 صفحہ 306
15. فتاوی منبع العلوم کوہ ون، جلد 1 صفحہ 168
16. وفاءالوفاء، جزء 4 ، صفحہ 193
17. ارشادالسالک، جلد 1، صفحہ 586-587
18. المواھب الدنیہ، جلد 4، صفحہ 595
19. وفیات الاعیان، جلد 5، صفحہ 187
20. روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم والسبع المثانی، جلد6، صفحہ 128
21. تفسیر روح المعانی، جلد 5، صفحہ 133
22. تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر الدمشقی، جلد 7، صفحہ 346
23. تفسیر الجامع لاحکام القرآن، القرطبی، جلد 10، صفحہ 470
24. تفسیر صفوۃ التفاسیر، الصابونی، جلد 1، صفحہ 577
25. تفسیر القرآن العظیم، ابن جریر الطبری، جلد 12، صفحہ 142
26. تفسیر التحریر والتنویر، ابن عاشور، جلد 17، صفحہ 316