۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا شہریار رضا عابدی

حوزہ/ عراق میں موجود ویٹیکن آیت اللہ سیستانی کی اہمیت کے قائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آقائے سیستانی نے عالمی سطح پر سیاسی میدان میں اور خصوصاً دہشتگردوں کے خلاف ایک بہت بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے اور پھر آپ نے عملی اعتبار سے ایزدیوں اور عیسائیوں کے جان و مال اور عزت کو بچانے کے لئے یہ پیغام دیا کہ ہم تمام انسانوں کو سب سے پہلے انسان سمجھتے ہیں اور بعد میں نوبت آتی ہے کہ کون کس دین سے تعلق رکھتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شکاگو سے مولانا سید شہریار رضا عابدی نے پوپ فرانسس کی آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی سے نجف اشرف آکر ان کے گھر پر کی جانے والی ملاقات پر سیاسی اور مذہبی اعتبار سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ عالمی عیسائی پیشوا پوپ فرانسس عراق مرجع جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی سے ملاقات کرنے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے ولادت جو کہ اوور کے مقام پر ہے،کی زیارت کیلئے سرزمین انبیاء عراق آئے۔

انہوں نے پوپ فرانسس کا مختصر تعارف کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس،سن1936ءکو ارجنٹینا میں پیدا ہوئے جب ان سے پہلے کے پوپ نے فروری 2013ء میں پوپ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تو یہ مارچ 2013ء میں پوپ کے عہدے پر فائز ہوئے یہ پوپ کے نمبر کے اعتبار سے 266نمبر پر ہیں۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ تمام عیسائی ادیان میں سب سے زیادہ پیروکار کیتھولک یا رومن کیتھولک فرقے کے ہیں اور اس فرقے کے علاوہ اور بھی ادیان ہیں لیکن ان کی اتنی تعداد میں پیروکار نہیں ہیں ، پوپ فرانسس کیتھولک فرقے کے لیڈر ہیں اور جب لیڈر بنتے ہیں تو در حقیقت ان کو ایک روحانی پیشوا کا مقام بھی ملتا ہے جیسے ہمارے یہاں ولی اللہ کا مقام ہوتا ہے۔

مولانا شہریار عابدی نے کیتھولک فرقے کے عقیدے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ کیتھولک فرقے کے ماننے والے پوپ کے عمل اور گفتار کو الہامی عمل اور الہامی گفتار سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اس تاریخی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شیعہ مرجع تقلید سے ان کے گھر پر آکر عالمی پوپ کی یہ ملاقات پہلی ملاقات ہو ہے۔اس سے قبل عام طور پر پوپ کی جتنی بھی ملاقات ہیں، چاہے ان کی یا ان سے پہلے کے حضرات کی ہو، وہ دینی مراکز میں ہوئیں ہیں۔شیعہ علماء جب بھی ملے ہیں گرجا گھروں میں جاکر ملے ہیں۔

اس تاریخی ملاقات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات آیت اللہ سیستانی کے گھر پر ہوئی، اس گھر کے بارے میں خود کیتھولک کے درمیان گفتگو چل رہی تھی کہ یہ کسی بھی پوپ کی کسی بھی دینی رہنما کے گھر پر پہلی ملاقات ہو گی ، اس اعتبار سے بھی یہ منفرد ملاقات ہے کہ اتنے چھوٹے سے گھر میں کسی سے بھی اب تک ایسی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

آیت اللہ العظمی سیستانی کی سادگی کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے مولانا عابدی نے کہا کہ واضح رہے کہ آیت اللہ سیستانی جس گھر میں رہتے ہیں وہ مدرسہ شبر کا وقف شدہ گھر ہے آیت اللہ سیستانی اس کا باقاعدہ طور پر کرایہ ادا کرتے  ہیں یہ گھر صرف اور صرف 50گز پر مشتمل ہے۔

حجت الاسلام عابدی نے کہا کہ اس تاریخی ملاقات کے نتائج جو نکلیں گے وہ عراق اور تمام ادیان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے کیونکہ ہم ہمیشہ گفتگو کرتے ہیں کہ ادیان کے درمیان ٹکراؤ سبب بنے گا کہ ادیان کے پیروکاروں کے دین سے دوری کا،تمام مسلمانوں کے فرقوں کے مابین اتحاد ہونا چاہیے لیکن اتحاد اس بنیاد پر کہ دونوں ایک دوسرے کو مسلمان سمجھے، نہ یہ کہ ہم مسلمان سمجھیں اور وہ ہمیں کافر قرار دیں ، نہ یہ کہ ہم صلح و آشتی کا سفید پرچم لہرائے اور وہاں سے کلاشنکوف کا جواب آئے۔پس تمام ادیان میں مساوات اور برابری کی بنیاد پر احترام اور اتحاد و وحدت ہونا چاہیے۔

انہوں نے اس ملاقات کو روکنے کیلئے مختلف ممالک، دہشتگردوں اور خصوصاً عربوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن مسلسل کوشش کر رہے تھے کہ عراق کچھ دنوں کیلئے عالمی میڈیا میں مثبت طریقے سے نہیں آئے،کیونکہ جب اس ملاقات کی تصاویر شائع ہوں گی تو آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ہوں گی اور یہ چیز سبب بنے گی کہ دنیا میں لوگ بڑی تیزی سے آیت اللہ سیستانی کے نام کو سرچ کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور کس دین سے ہیں۔

اس ملاقات سے قبل عراق سے متعلق مختلف میڈیا پر اس قسم کی خبریں نشر کی جارہی تھی کہ وہاں کے حالات خراب ہیں،اب یہ بات واضح رہے کہ پوپ فرانسس نے ڈیڑھ سال کے بعد کوئی پہلا سفر کیا ہے اور وہ بھی اس ملک کا جہاں پر بہت زیادہ خطرات ہیں اور ان کو آخری وقت تک روکا جا رہا تھا جیسے کہ کل ان کا جہاز ٹیک آف کرنے سے چند گھنٹے پہلے تک یہ گفتگو چل رہی تھی کہ وہاں پر خطرہ ہے لیکن پوپ فرانسس نے فرمایا کہ آیت اللہ سیستانی اور عراقی گورنمنٹ نے میری سکیورٹی کی ذمہ داری لی ہے۔

آیت اللہ سیستانی کی سیاسی اور مذہبی خدمات کو بیان کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ عراق میں موجود ویٹیکن آیت اللہ سیستانی کی اہمیت کے قائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آقائے سیستانی نے عالمی سطح پر سیاسی میدان میں اور خصوصاً دہشتگردوں کے خلاف ایک بہت بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے اور پھر آپ نے عملی اعتبار سے ایزدیوں اور عیسائیوں کے جان و مال اور عزت کو بچانے کے لئے یہ پیغام دیا کہ ہم تمام انسانوں کو سب سے پہلے انسان سمجھتے ہیں اور بعد میں نوبت آتی ہے کہ کون کس دین سے تعلق رکھتا ہے۔

آیت اللہ العظمی سیستانی نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ نجف اشرف کا دروازہ آپ لوگوں کیلئے کھلا ہے جب چاہے نجف اشرف تشریف لائیں اور وہاں قیام فرمائیں حتی کہ آپ نے بہت بڑی رقم مختص کی کہ عیسائیوں اور ایزدیوں کی خواتین کو داعش والے بیچ رہے تھے ان کو خریدا جائے اور ان کو محفوظ مقامات پر یا ان کے گھروں تک پہنچا دیا جائے یہی وجہ ہے کہ تشیع اور خصوصاً آیت اللہ سیستانی کا ویٹیکن میں بہت زیادہ احترام کا سبب بنا اور اسی طریقے سے عاشورا اور اربعین کے جلوسوں میں عیسائیوں کی طرف سے ماتمی دستے آئے۔یہ نتیجہ ہوتا ہے جب آپ کسی کے مال و جان اور عزت کا خیال رکھیں۔

انہوں نے عراقیوں کی امام حسین علیہ السلام سے محبت اور عالمی سطح پر مرجعیت دینی کے مقام کا تذکرہ کیا اور کہا البتہ عراق میں ویسے ہی امام حسین علیہ السلام سے سب کو محبت ہے لیکن بلا شک آیت اللہ سیستانی کے عمل سے،ہمارے تمام مراجع عظام صلح و صفا کا ایک پرچم ہے اور دو ہستیاں ایسی ہیں کہ جب بھی ان کی تصویر آتی ہے تو خود بخود تشیع کا تصور ذہن میں آتا ہے یعنی آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی اور آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ہیں۔خداوند تبارک و تعالیٰ ان دونوں ہستیوں کو صحت و عافیت کے ساتھ طول عمر عنایت فرمائے اور ان کا سایہ تمام مسلمانوں پر قائم اور دائم رہے۔

اس تاریخی ملاقات سے خائف ممالک کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس ملاقات سےکچھ عرب ممالک بہت زیادہ خائف تھے لہذا دہشت گردوں نے بھی ان کے بل بوتے دھمکیاں دی۔

اس ملاقات کے بارے میں ایک موضوع ویٹیکن میں کیتھولک عیسائیوں کے درمیان ڈسکس ہوا کہ کسی بھی شیعہ مرکز کا یہ پہلا دورہ ہو گا جو پوپ کی جانب سے ہو رہا ہے اور کچھ نے کہا کہ ایک دورہ 2019ءمیں سنی مرکز جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب سے ملاقات کے دوران ہوا،کچھ کا کہنا ہے کہ بیلنس ہوا شیعہ رہنما اور سنی رہنما سے ملاقات،لیکن بعض ان کے اسکالرز نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ الازہر بھی شیعہ اسماعلیوں کا مرکز تھا اور دوسری بات یہ کہ شیخ الازہر احمد الطیب سنیوں کے لیڈر نہیں ہیں ان کے فتوے پر سنی عمل نہیں کرتے ہیں وہ صرف ایک سنی یونیورسٹی کے سربراہ ہیں لہذا کسی اسلامی لیڈر جو صحیح معنوں میں لیڈر ہو اور اس کے بہت سارے پیروکار ہوں ، جس کے حکم پر لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہوں تو اس اعتبار سے عالم اسلام کے کسی بھی ایسے لیڈر سے یہ کسی بھی پوپ کی پہلی ملاقات ہے اور ہم اس بات کی طرف پہلے توجہ دلا چکے کہ یہ ایک ایسی منفرد ملاقات ہے جس میں پوپ خود تشریف لا چکے۔

آخر میں ، مولانا شہریار عابدی نے خداوند متعال سے دعا کی کہ خداوند تمام ادیان و مذاہب کو محبت کے ساتھ رہنے اور اختلافی مسائل کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ چیز سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اختلافات کو تلوار سے یا قتل عام سے حل نہیں کیا جاسکتا اور اسی طرح سے دعا ہے کہ تمام فرقوں میں اتحاد و یکجہتی کی فضاء قائم ہو اور اختلافی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی توفیق عطا ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .