۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آیت اللہ حافظ بشیر نجفی کی خدمت میں ڈنمارک کےچعراق میں سفیر

حوزہ/ مرجع عالی قدر نےفرمایا کہ حکومت ِحضرت امام علی علیہ السلام کا تذکرہ کرتےہوئےفرمایا کہ حضرت امام علی  علیہ السلام کی وہ حکومت تھی کہ جس نےحقیقی عدالت کومتعارف کروایا اورلوگوں کے امورکی دیکھ بھال کی،امام علیہ السلام نےخود ایک سوکھی جوکی روٹی  پراکتفا کیا جبکہ انکی حکومت اسلامیہ کی حدود کرہ ارضی کےچاروں طرف کئی ممالک پرمحیط تھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نجف اشرف/حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی نے مرکزی دفتر نجف اشرف میں ملاقات کو آئےڈنمارک کےسفیراسٹیگ پاولوپیرس سےمخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ بہتری کی جانب عراق کو لےجانے کےلئےضروری ہے کہ بے روزگار جوانوں کو روزی فراہم کرنےکےلئےجدید منصوبوں کو عملی شکل دی جائے انہوں اسی ضمن میں ڈنمارک کی حکومت کو عراق سےتعاون کی نصیحت کرتےہوئےفرمایا کہ جوانوں کو روزگار  ملنےسے بے روزگاری میں کمی آئےگی اور اگر ڈنمارک اس شعبے میں عراق کےساتھ تعاون کرتا ہے تو اس سےدونوں ملکوں کوفائدہ  پہنچےگا۔ مزید فرمایا کہ سیاسی اور عسکری شعبوں سےاقتصادی شعبہ مہم اورمؤثرہے۔ 

مرجع عالی قدر نےفرمایا کہ کرسیوں،مناصب اورعہدوں  پر بیٹھے افراد کو اگر اسکا احساس ہوتا کہ انکی ذمہ داری عوام کی خدمت ہےتویقیناعوام خوشحالی کی زندگی بسرکررہی ہوتی اور وہی عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی۔

مرجع عالی  قدر نے دوران گفتگو حکومت ِحضرت امام علی علیہ السلام کا تذکرہ کرتےہوئےفرمایا کہ حضرت امام علی  علیہ السلام کی وہ حکومت تھی کہ جس نےحقیقی عدالت کومتعارف کروایا اورلوگوں کے امورکی دیکھ بھال کی،امام علیہ السلام نےخود ایک سوکھی جوکی روٹی  پراکتفا کیا جبکہ انکی حکومت اسلامیہ کی حدود کرہ ارضی کےچاروں طرف کئی ممالک پرمحیط تھیں،حضرت  امام علی علیہ السلام نےہی یہ فرمایا تھا ( وَ لَوْ شِئْتُ لَاهْتَدَیْتُ الطَّرِیْقَ اِلٰى مُصَفّٰى هٰذَا الْعَسَلِ، وَ لُبَابِ هٰذَا الْقَمْحِ، وَ نَسَاۗئِجِ هٰذَا الْقَزِّ ،وَ لٰكِنْ هَیْهَاتَ اَنْ‏ یَّغْلِبَنِیْ هَوَایَ، وَ یَقُوْدَنِیْ جَشَعِیْۤ اِلٰى تَخَیُّرِ الْاَطْعِمَةِ، وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ اَوِ الْیَمَامَةِ مَنْ لَّا طَمَعَ لَهٗ فِی الْقُرْصِ، وَ لَا عَهْدَ لَهٗ بِالشِّبَعِ، اَوْ اَبِیْتَ مِبْطَانًا وَّ حَوْلِیْ بُطُوْنٌ غَرْثٰى، وَ اَكْبَادٌ حَرّٰى، اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کیلئے ذرائع مہیا کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے، جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں، درآنحالانکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں )۔

دین کا سیاست سے ربط پر آپ نے فرمایا کہ صحیح وسلیم سیاست دین کی روشنی میں ملک اورفرد کوصحیح و سلیم طریقےسےچلانا ہےدین اجتماعی، اداری اورحکومی امورسے  معزول نہیں ہے،حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیھما السلام  ہی تھےکہ جنہوں نےکفالت کےنظام اوربےروزگارافراد کی سرپرستی  کےنظام کی بنیاد ڈالی،اسلام ہی وہ دین ہےکہ جس نےفقروفاقےاور غربت سےجنگ لڑی ہےیہاں تک کہ حضرت رسول خدا ؐ نےفقیری  سےہوشیاروخبردارکرتے ہوئےفرمایا تھا( كَادَ الفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرَاً  غریبی اور ناداری انسان کوکفر کےقریب لے جاتی ہے)۔   

مرجع عالی قدر نے مزید فرمایا کہ کچھ عالمی طاقتیں اپنے  شیطانی اہداف کےحصول کےلئےجوانوں میں الحاد کو پھیلا رہی ہیں   جبکہ فتنوں کی اصل جڑ پوری دنیا میں یہی الحادہےاس لئےکہ یہ الحاد کسی بھی  دینی نظام کونہیں مانتا،جبکہ دین ہی ہے کہ جوانسان کو کسی دوسرے کےحقوق اوراس پرزیادتی سےروکتا ہے۔ 

دہشت گرد اور دہشت گردی کےحوالے سے مرجع عالیقدر نےفرمایا کہ(بعض طاقتوں نےانہیں بنایاہےاور وہی طاقتیں ان دہشت  گردوں کی مدد سے دوسرےممالک،دوسرےسیاسی  نظام  اوردوسرے  ملکوں کی عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں دہشت گردوں کا سیاسی  اہداف کےلئے دین کےچولے تلےاستعمال کیا اور دین کےلیبل کو استعمال کرکےاپنےسیاسی اہداف کےحصول کےلئےہرممکنہ کاوشیں کی گئیں ساتھ ساتھ عام لوگوں اور دوسرے معاشرے کے نزدیک دین کی صورت بگاڑنےکی کوشش کی گئی۔ 

آخر میں مرجع عالی قدر نے فرمایا کہ حقیقی اسلام محمدی  اوران دہشت گردوں کےبناؤٹی اسلام اوراسی طرح تابعین کےذریعہ جواسلام پہنچا اوراہلبیت علیھم السلام کےذریعہ جواسلام پہنچا ان سب کےدرمیان فرق سمجھنےاورحقیقی اسلام محمدی کی معرفت کےلئے لازمی ہے کہ اس اسلام محمدی کا مطالعہ کیا جائےکہ جو اہلبیت نبی علیھم السلام سے پہنچا ہے۔ اسی ضمن میں مرجع عالی قدر نے اہل عقل وخرد کوحقیقت کی تلاش میں تحقیق وکھوج بین کرنے کی دعوت  دی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .