حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے سربرہ سید حسن نصراللہ کے عالمی یوم القدس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئےکہا کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فلسطینی اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے رہیں اور نہ یروشلم کو ترک کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہے، فلسطینی عوام کے لئے یہ ایک اصول ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے زور دے کر کہاکہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ فلسطینیوں پر مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت غالب آجائے گی اور مسلسل محاصرے اور معاشی دباؤ کے پیش نظر فلسطینی شہری ہتھیار ڈال دیں گے، تاہم فلسطینیوں کے رد عمل اور ان کی مزاحمت نے اسرائیلیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
سید حسن نصراللہ نے یہ بھی کہاکہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں سے میری درخواست ہے کہ وہ مزاحمت کے آپشن پر عمل کریں کیونکہ یہ آپشن مستقبل میں تنازعات کے اصولوں کو بدل دے گا، اسی کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ خطے میں مزاحمت کے محور کا استحکام بہت اہم ہے اور اس نے صہیونی دشمن کے خلاف لڑائی پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے مزید کہا،اسرائیل اس وقت خطے میں جاری صورتحال اور مزاحمت کی فتوحات سے بہت پریشان اور خوفزدہ ہے، آج صیہونی حکومت بحران کا شکار ہے، صہیونی حکومت کے اندرونی بحرانوں نے آسمان کو چھوٹا کردیا ہے جو اس حکومت کی کمزوری اور نااہلی کی علامت ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ آج صہیونیوں کی سب سے زیادہ تشویش ان کی داخلی صورتحال کے بارے میں ہے، صہیونی اس وقت خانہ جنگی کی طرف گامزن ہیں اور اس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہیں، حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مقبوضہ علاقوں میں ڈیمونا جوہری تنصیبات پر مزاحمتی تحریک راکٹ حملے کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیمونا جوہری تنصیبات کے قریب گرنے والا میزائل صیہونیوں کے درمیان سخت تشویش کا باعث بنا۔
انہوں نے مزید کہاکہ اسرائیل کو بہت تشویش ہے کہ مزاحمتی کاروائیوں کو مغربی کنارے تک بڑھایا جائے گا،اطلاعات کی بنیاد پر صیہونی حکومت کو فی الحال بہت سے داخلی اور خارجی بحرانوں کا سامنا ہے، سید حسن نصراللہ نے مزید زور دیاکہ کسی بھی صورت میں قدس کے عالمی دن کے موقع پر ہم سب کا فرض ہے کہ مسئلہ فلسطین کی حمایت کریں، فتح کے راستے پر تمام مسلمانوں اور آزاد لوگوں کو فلسطینیوں کی مدد کرنی ہوگی، یہ امداد مختلف علاقوں میں مہیا کی جانی چاہئے۔
سید حسن نصراللہ نے کہاکہ میں صہیونی دشمن کو متنبہ کرتا ہوں کہ فوجی مشقوں کے دوران مزاحمتی تحریک کسی بھی جارحانہ حرکت کو برداشت نہیں کرے گی، لہذا توقع کی جارہی ہے کہ اس فوجی تدبیر کے دوران لبنانی سرزمین پر ذرا بھی حملہ نہیں ہوگا ، کیونکہ بصورت دیگر مزاحمتی کاروائی تل ابیب کے اندر ہوگی۔