حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی میڈیا ایکٹوسٹ ریحانہ مرتضی نے کہا ہے کہ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے مجاہدین نے ۶۶ روز تک سرحدِ لبنان و فلسطین پر ایسی مثالیں اور تاریخی مزاحمت دکھائی کہ دشمن، دنیا اور خود امتِ مقاومت بھی اس کے گواہ بنے۔ اسلامی مزاحمت نے صیہونی دشمن پر کاری ضربات لگائے جس نے آخرکار جنگ بندی کی درخواست کرنے پر اسے مجبور کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لبنان کے عوام اور حزب اللہ کے حامیوں نے شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ایک نہایت دشوار سال گزارا، جس میں معاشی و سیاسی دباؤ، جنوبی لبنان کے لوگوں کا بے گھر ہونا، رہنماؤں اور کمانڈروں کی شہادت اور روزانہ کی بنیاد پر عدم تحفظ شامل ہے۔ اس سب کے باوجود مزاحمت نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔
ریحانہ مرتضی نے کہا کہ ۲۳ ستمبر ۲۰۲۴ کو صیہونی دشمن نے لبنان پر یلغار شروع کرنے سے پہلے کمیونیکیشن سسٹم تباہ کیا اور حزب اللہ کے فوجی رہنماؤں کو نشانہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ قیادت، عسکری و انسانی صلاحیت کو ختم کر کے زمینی حملے کے ذریعے حزب اللہ کو مکمل طور پر نابود کیا جائے۔ پہلے دن ہی لبنان پر ۱۲۰۰ سے زائد حملے ہوئے، لیکن دشمن کے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے کے مطالبات دراصل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ حزب اللہ کی عسکری اور میزائل طاقت کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حزب اللہ کا فیصلہ واضح ہے کہ وہ کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے گا، کیونکہ یہی اسلحہ لبنان کے عوام، ریاست اور خودمختاری کا اصل محافظ ہے۔
ریحانہ مرتضی نے کہا: “ہتھیار ڈالنے کا مطلب امریکہ و اسرائیل کے سامنے سر جھکانا ہے اور لبنان کو صیہونی کالونی یا امریکی اڈہ بنا دینا ہے۔”
انہوں نے شیخ نعیم قاسم کی جانب سے سعودی عرب کو مذاکرات کی دعوت کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ یہ دراصل تمام عرب ممالک کے لیے پیغام ہے کہ صیہونی منصوبوں کے مقابلے میں متحد ہوں۔ کیونکہ یہ دشمن نہ امن چاہتا ہے اور نہ کسی عرب یا مسلم ملک کو محفوظ دیکھنا چاہتا ہے، بلکہ صرف اپنے مفادات کے پیچھے ہے۔









آپ کا تبصرہ