اتوار 24 اگست 2025 - 12:52
انبیاء (ع) کے پیغامات بالکل واضح ہیں، لیکن کچھ لوگ جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے: میر باقری

حوزہ/ مجلس خبرگانِ رہبری کے رکن حجت الاسلام والمسلمین سید محمد مہدی میر باقری نے کہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے پیغام مبہم نہیں بلکہ روشن اور صریح ہیں، مگر بعض لوگ دنیاوی وابستگیوں اور شیطانی وسوسوں کے باعث ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس خبرگانِ رہبری کے رکن حجت الاسلام والمسلمین سید محمد مہدی میر باقری نے کہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے پیغام مبہم نہیں بلکہ بالکل روشن اور واضح ہیں، لیکن کچھ لوگ دنیاوی تعلقات اور شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ان کو سمجھنا نہیں چاہتے۔

انہوں نے یہ بات قم میں منعقدہ مجلس عزا (ہیئت ثاراللہؑ) کے موقع پر سورہ انفال کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ خداوند عالم نے شیطان اور اس کے پیروکاروں کو دنیا میں منصوبے بنانے اور اپنے ساز و سامان آزمانے کی مہلت دی ہے، یہاں تک کہ وہ مؤمنین پر غلبہ پانے کا گمان کرنے لگتے ہیں، لیکن یہ دراصل ان کی غلط فہمی اور شیطانی دھوکے کا نتیجہ ہے۔

حجت الاسلام میر باقری نے مزید کہا کہ قرآن کریم کفارِ مکہ کو "آلِ فرعون" سے تشبیہ دیتا ہے، کیونکہ جیسے فرعون کے پیروکار اس کی بات کو موسیٰؑ کے کلامِ حق پر ترجیح دیتے تھے، اسی طرح دنیا کے مستکبرین اور ان کے حامی بھی انبیاء کے روشن کلمات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ شیطان انبیاء کے پیغام کو مبہم ظاہر کرتا ہے اور مستکبرین کے باطل منصوبوں کو فریب دے کر خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔

انہوں نے موجودہ دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ "عصرِ روشن خیالی" کا دعویٰ کر کے انبیاء کی تعلیمات کو غیر ضروری سمجھتے تھے اور دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ کرتے تھے، آج وہ بتائیں کہ انسانی معاشرہ ماحولیاتی بحران اور اخلاقی انحطاط کا شکار کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان خدا کے مقابلے میں سرکشی کرتا ہے اور انبیاء کے واضح پیغام کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کی اپنی دی ہوئی سہولتیں اور ایجادات اس کے خلاف ہو جاتی ہیں۔

رکن مجلس خبرگان نے کہا کہ انبیاء کے کلمات انسانیت کی ہدایت کے لیے بالکل واضح ہیں، لیکن جو لوگ ان کو نہیں سمجھتے وہ دراصل سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ آیاتِ الٰہی کی ناشکری پہلے مرحلے میں نعمتوں کے زوال کا سبب بنتی ہے، اور اس کے بعد انکار و تکذیب کا مرحلہ آتا ہے جس کا انجام ہلاکت ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ حقیقی ہدایت تبھی ممکن ہے جب انسان امام اور حجتِ خدا کی طرف رجوع کرے، کیونکہ امام ہی وہ ذات ہے جس کے ذریعے تمام آیات "بیّن" یعنی واضح ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان اپنی زندگی کے سفر میں ان نشانیوں کو دیکھتا رہے تو صحیح راستے پر ہوگا، ورنہ وہ بھٹک جائے گا۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ یہ دنیا خدا کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن یہ نشانیاں تبھی حقیقی "آیات" بنتی ہیں جب انسان انبیاء کے منصوبے کے مطابق اور امام کے ساتھ چلتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہی قرآن جو سب سے بڑی آیت ہے، گمراہ لوگوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha