حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے مسجد اعظم قم میں جاری اپنے درسِ اخلاق کو شرحِ نہج البلاغہ کے ساتھ مختص کیا اور کہا: اگر ہم کتاب "کافی" کے مضامین پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معصومین علیہم السلام اپنے اصحاب سے کس طرح گفتگو کرتے تھے۔ امام علی علیہ السلام نے کبھی اپنے اصحاب سے نہیں پوچھا کہ انہوں نے گزشتہ درس میں کیا سیکھا، بلکہ اُن سے سوال کیا کرتے انہوں نے گذشتہ رات کو کیا دیکھا؟
حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: انبیاء علیہم السلام جو چیزیں لائے ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ علم کا اصل ذریعہ علم حضوری ہے، نہ کہ علم حصولی اور علم حضوری کی ابتدا معرفت نفس سے ہوتی ہے۔ انسان خود کو مفہوم سے نہیں، بلکہ علم حضوری سے جانتا ہے اور پہچانتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: انسان جب خود کو درک کرتا ہے تو وہ اس کا حقیقی اور خارجی وجود ہے، نہ کہ ذہنی تصویر۔ کبھی انسان مسجد یا سڑک کا تصور کرتا ہے، اور ان کی تصاویر ذہن میں لاتا ہے، جو کہ علم حصولی ہے لیکن کبھی وہ خود ان چیزوں کو دیکھتا ہے، جو کہ علم حضوری ہے۔
اس مرجع تقلید نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے عظیم عالم حضرت علی علیہ السلام تھے، وہ اللہ کے اذن سے فرماتے ہیں: "ما للعالم اکبر منی" یعنی ساری دنیا میں میری طرح کا کوئی مرد نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "علی انفسنا"۔ یعنی علی ہمارا نفس ہیں۔ جو کچھ اللہ نے انسانوں کو دینا تھا، وہ سب علی علیہ السلام کو دیا۔ علی علیہ السلام آج بھی زندہ ہیں اور ہم روزانہ ان کے فرامین، نہج البلاغہ کا مطالعہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے، لیکن علم دینے سے مزید بڑھتا ہے"۔ ہمیں یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں مال کو دو بار قرض دوں تو یہ صدقہ دینے سے کہیں بہتر ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی عزت محفوظ رہتی ہے اور وہ اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں"۔