۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
ممبئی محفل

حوزہ/ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے مناسبت سے شہر ممبئی کی مسجد ایرانیان میں ایک عظیم الشان جشن منعقد ہوا جس میں ایرانی کلچرل ڈائریکٹر جناب فاضل صاحب کے علاوہ دہلی کے مہمان عالم اور شہر ممبئی کے ممتاز علماء اور مومنین کرام نے شرکت کی۔جشن کا آغاز بعد از نماز مغربین تلاوت کلام پاک سے ہوا۔تقریب کی پہلی تقریر دہلی سے مہمان خطیب  محمد باقر رضا سعیدی نے کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے مناسبت سے شہر ممبئی کی مسجد ایرانیان میں ایک عظیم الشان جشن منعقد ہوا جس میں ایرانی کلچرل ڈائریکٹر جناب فاضل صاحب کے علاوہ دہلی کے مہمان عالم اور شہر ممبئی کے ممتاز علماء اور مومنین کرام نے شرکت کی۔جشن کا آغاز بعد از نماز مغربین تلاوت کلام پاک سے ہوا۔تقریب کی پہلی تقریر دہلی سے مہمان خطیب محمد باقر رضا سعیدی نے کی۔

انہوں نے قران مجید کے سورہ علق کی ابتدائی آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے واضح کیا کہ پروردگار کی سب سے پہلی وحی اور عرش اعظم سے نازل ہونے والی سب سے پہلی ایتوں اور سب سے پہلے سورہ میں پڑھنے کا بھی تذکرہ ہے اور قلم کے ذریعے تعلیم دینے کا بھی تذکرہ ہے، وہ تعلیم جو خداوند عالم نے دی۔ آپ نے سوال کیا کہ خداوند عالم نے یہ تعلیم کس کو دی ظاہر سی بات ہے کہ اس تعلیم کا سب سے اعلی مصداق پیغمبر اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکت ہے تو جب اللہ نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ہے اس وجہ سے یہ ماننا پڑے گا کہ پیغمبر اسلام اللہ کی طرف سے صاحب علم و معرفت ہیں۔ اگر ہم نعوذ باللہ پیغمبر اسلام کو ان پڑھ کہیں گے تو ہمیں لاشعوری طور پر اس لازمہ کا سامنا کرنا ہوگا کہ یا تو خدانخواستہ اللہ نے تعلیم صحیح نہیں دی یا پیغمبر اسلام نے نعوذ باللہ تعلیم دینے کے باوجود سیکھا نہیں۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلام کو ان پڑھ کہنا نادانی اور کم فہمی کی نشانی ہے۔

انہوں نے تقریر کے دوسرے حصے میں چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا تذکرہ کیا اور سائنس میں اپ کے شاگرد جناب جابر ابن حیان کا ذکر فرمایا۔

اس کے بعد ممبئی میں مقیم مولانا عزیز حیدر نے تقریر کی۔انہوں نے قرآن مجید کے سورہ جمعہ کی ابتدائی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ اس سورہ میں اللہ نے اپنی چار صفتیں بیان کی ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی چار صفات کو ذمہ داری کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔انہوں نے ان چاروں ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے حکمت کی تعلیم کے حوالے سے دلیل پیش کی کہ جب حکمت کی ذمہ داری رسول کریم کی ہے تو اس کا مطلب رسول کے بغیر قرآن کو سمجھا نہیں جا سکتا اور عرب کے عرب زبان ہونے کے باوجود قرآن کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

اس کے بعد مولانا سید عادل زیدی نے بڑے اچھے ترنم کے ساتھ قصیدہ پیش کیا۔اس کے بعد ناظم نے مولانا صابر رضا کو دعوت دی۔ مولانا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حدیث کی رو سے معصوم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تم نے چھ چیزوں کی پابندی کر لی تو میں تمہارے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ چھ چیزیں یہ ہیں: جب بات کرو تو جھوٹ نہ بولو، جب وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو، کوئی تمہیں امانت دے تو اس میں خیانت نہ کرو، اپنی عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کرو، نامحرموں سے اپنی انکھوں کو بچائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو۔

اس کے بعد مسجد ایرانیان کے امام جماعت مولانا نجیب الحسن زیدی نے اپنا ایک بہترین قصیدہ پیش کیا۔سب سے آخر میں خوجہ مسجد کے امام جماعت مولانا روح ظفر نے تقریر کی۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی اور ہندوستان کے موجودہ مسائل اور حالت حاضرہ کے تحت اوقاف کے مسئلے کی طرف مومنین کی توجہ مبدول کرائی اور کہا کہ ہندوستان میں اوقاف کسی ایک اسلامی فرقے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان کو اوقاف کے بارے میں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اپنے تئیں جو بھی کچھ کر سکتا ہے اسے انجام دینا چاہیے۔

محفل کی نظامت جناب علی اصغر حیدری نے اپنے بہترین لب و لہجے اور تجربہ کارانہ انداز نظامت سے انجام دی اور ابتدائی لمحات میں آپ کے فرزند ارجمند نے خود اپنا کلام اپنی زبان سے پیش کیا جس کو مومنین اور علماء کی جانب سے کافی پذیرائی ملی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .