تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿بقرہ، 104﴾
ترجمہ: اے ایمان والو (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) راعنا نہ کہا کرو (بلکہ) انظرنا کہا کرو اور (توجہ سے ان کی بات) سنا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
تفســــــــیر قــــرآن:
1️⃣ راعنا کا لفظ اس بات کی سند ہے کہ یہودی پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت کرتے تھے اور آنحضرت کا تمسخر اڑاتے تھے.
2️⃣ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو "راعنا" کے لفظ سے پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مخاطب کرنے سے منع فرمایا اور کہا اس کی بجائے "انظرنا" کا لفظ استعمال کرو.
3️⃣ ایسی گفتار و کردار سے اجتناب کرنا ضروری ہے جس کے نتیجے میں دشمن ناجائز فائدہ اٹھائے.
4️⃣ نیک عمل کے لیے نیک نیت ہی کافی نہیں ہوتی.
5️⃣ ایسے الفاظ اور کلمات جن سے دینی مقدسات کی توہین ہوتی ہو ان سے پرہیز کرنا اور دوسرے لوگوں کو روکنا ضروری ہے.
6️⃣ ایسے کلام یا گفتگو سے اجتناب ضروری ہے جس میں پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت یا تمسخر کا پہلو نکلتا ہو.
7️⃣ دینی قائدین کا احترام ضروری ہے.
8️⃣ پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت کرنا یا تمسخر اڑانا کفر کا موجب ہے.
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راھنما، سورہ بقرہ
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•