اتوار 16 مارچ 2025 - 17:07
شام کا خونیں مقتل!

حوزہ/شام میں اقتدار کی تبدیلی کے وقت جوبلندبانگ دعوے کئے گئے تھے وہ سب کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔تحریر ہئیت الشام کےسربراہ احمد الشرع نے کہاتھاکہ ہماری حکومت میں سب برابر ہوں گے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی ۔انہوں نے شام میں موجود اقلیتوں کو بھی تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی ۔اسی یقین دہانی کے فریب میں آکر علویوں نے اپنا سارااسلحہ سرینڈر کردیاتھااور غیر مسلح ہونے کو ترجیح دی تھی، جس کا خمیازہ انہیں اب بھگتناپڑرہاہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| شام میں اقتدار کی تبدیلی کے وقت جوبلندبانگ دعوے کئے گئے تھے وہ سب کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔تحریر ہئیت الشام کےسربراہ احمد الشرع نے کہاتھاکہ ہماری حکومت میں سب برابر ہوں گے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی ۔انہوں نے شام میں موجود اقلیتوں کو بھی تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی ۔اسی یقین دہانی کے فریب میں آکر علویوں نے اپنا سارااسلحہ سرینڈر کردیاتھااور غیر مسلح ہونے کو ترجیح دی تھی، جس کا خمیازہ انہیں اب بھگتناپڑرہاہے۔اس کے برعکس دروزیوں نے احمد الشرع کے ’غیر مسلح ہونے ‘ کے مطالبے کو مسترد کردیاتھا۔ان کا کہناتھاکہ پہلےقانون کا مسودہ تیارکرکے اس پر عوام سے رائے لی جائے ۔دوسرے شامی عوام کی آزاد اور خودمختار حکومت تشکیل دی جائے ،اس کے بعد ہم اسلحہ سرینڈر کردیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ شامی جنگجو غیر مسلح علویوں کا قتل عام توکررہے ہیں مگر دروزیوں کے علاقے میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرپائے ۔کلیسائوں کی ایک تنظیم نے بیان جاری کیاہے کہ ہم شام کی سرزمین کو ٹکڑوں میں بٹنے نہیں دیں گے ۔اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ شام کو تقسیم کرنے کی سازش ہورہی ہے تاکہ علاقائی سطح پر استعمار کو مضبوط کیاجاسکے ۔

شام میں ابھی عبوری حکومت ہے ۔احمد الشرع کو مختلف تنظیموں اور گروہوں نے اپنے سربراہ کی حیثیت سے عبوری صدر نامزد کیاہواہے ۔شامی عوام کی حکومت تو انتخاب کےبعد تشکیل پائے گی ،جس کے امکانات ابھی مفقود ہیں ۔احمد الشرع خود بھی انتخاب کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس طرح انہیں اقتدار سے بے دخل ہونے کا ڈر ستارہاہوگا۔البتہ استعمار نے کوٹ پینٹ اور ٹائی پہناکر ان کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی ہے ۔آخر ایک انتہاپسند شخص جو داعش جیسے دہشت گرد گروہ سے وابستہ رہ چکاہو،اچانک حلیہ تبدیل کرکے امن کی دہائی کیسے دینے لگا ؟یہ فہم سے بالاتر ہے ۔داعش کے سرگرم لیڈر احمد الجولانی جسے استعمار نے ’احمد الشرع ‘ کے نئے نام کے ساتھ عالمی بازار میں اتاراہے ،بہت جلد اپنے اصلی روپ میں واپس آگیا۔وہ شخص جس نے عراق کی ایک یونیورسٹی کے سینکڑوں طالب علموں کو قتل کرواکے دجلہ میں پھنکوادیاتھا،اب شام کے ساحلی علاقوں میں علویوں ،عیسائیوں ،سنیوں،شیعوںاور دیگر مسالک و مذاہب کے افراد کو قتل کرواکے سمندر میں پھنکوارہاہے ۔نوجوانوں کوگھروں میں گھس کر باہرنکالاجارہاہے اور پھر انہیں گولیوں سے بھون دیاجاتاہے ۔ علویوں کے ایک معروف رہنما جن کی عمر نوے سال سے زائد تھی انہیں ان کے بیٹے کے ساتھ گھر سے زبردستی لے گئے اورٹکڑے کرکے سڑک کے کنارے پھینک دیا۔ان کے بارے میں عیسائیوں ،شیعوں اور سنیوں کے بیانات ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ یہ عالم بین الادیان ہم آہنگی کے لئے جدوجہد کرتے تھے ۔علویوں کے مذہبی رہنما شیخ سلیم نازلی کے مطابق اب تک دس ہزار سے زائد علویوں کو موت کے گھاٹ اتاراجاچکاہے اور اس سے دوگنالوگ لاپتہ اور زخمی ہیں ۔انہوں نے دہشت گردوں کی تربیت کا ساراالزام ترکیہ پر عائد کرتے ہوئے اردوگان کو موردالزام ٹھہرایاہے ۔صورت حال اتنی سنگین ہے کہ ہئیت تحریرالشام کے رکن اور عبوری وزیر خارجہ نے اپنے جنگجوئوں کو ہدایت جاری کرتے ہوئےکہاہے کہ وہ قتل عام کے بعد سڑکوں کو صاف کردیں تاکہ کہیں مقتولین کے باقیات حتیٰ کہ خون کے دھبے بھی موجود نہ رہیں ۔اس کے بعد میڈیا کو آنے کی اجازت دی جائے ۔انہوں نے جنگجوئوں کو کسی بھی واقعہ کی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لئے بھی منع کیاہے تاکہ سوشل میڈیا پر حقائق عام نہ ہوسکیں۔

علوی جنہیں شیعہ ثابت کیاجارہاہے دراصل دودھڑوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں ۔قدیم علوی فکری اور نظریاتی لحاظ سے ایک فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔جاہلیت کے دور میںیہ فرقہ حضرت علیؑ کی الوہیت کا قائل تھا۔ان کی تفہیم کی کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ ان کی تکفیر کا فتویٰ دے کر قتل عام کیاگیا ۔ان مظالم کے نتیجے میں یہ لوگ عام آبادیوں سے فرار کرگئے ۔انہوں نے پہاڑوں اورساحلی علاقوں میں جاکر پناہ لی ۔امتداد زمانہ کے ساتھ انکی فکر اور زندگیوں میں زیادہ تبدیلی رونمانہیں ہوئی ۔مگر جب علم اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو ان کے نوجوان بھی نئے زمانے اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے لگے ۔ان کے پاس علم کی روشنی آئی تو انہوں نے اپنا قدیم نظریہ ترک کے مسلمانوں کے عام عقائد اختیارکرلئے ۔اب وہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی طرح حضرت علیؑ کو ولیٔ خدااور امام سمجھتے ہیں ۔ان کے عقائد کی بنیاد پر انہیں ہرگز شیعہ نہیں کہاجاسکتا بلکہ وہ سنّی مسلک پر عمل کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مغربی میڈیا اور شامی جنگجو انہیں شیعہ کیوں مشہور کررہے ہیں۔اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت مشکل نہیں ہے ۔جو شخص شام اور علاقائی صورت حال سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتاہے وہ اس سیاست کو بہتر طریقےسے سمجھ سکتاہے ۔حزب اللہ اور حماس کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اب استعمار نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی اختیارکی ہے ۔کیونکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بے گناہوں کی نسل کشی پر پوری دنیا کے مسلمان ایک زبان تھے ۔اُس پر حزب اللہ لبنان اور حوثیوں کی مقاومت نے عالم اسلام کو متحد کرنے میں کلیدی کردار اداکیا۔لہذا حزب اللہ سے جنگ بندی کے فوراً بعد شام میں اقتدار کی تبدیلی کا ایساکھیل کھیلاگیاکہ دنیا ششدر رہ گئی ۔اس کے بعد منظم لایحۂ عمل کے تحت علویوں کے قتل عام کا خاکہ تیارکیاگیاتاکہ اس خونریزی کوشیعہ وسنّی کا رخ دے کر ایک بارپھر پرانے زخموں کو ہراکردیاجائے ۔یہ تمام پرانے زخم بھی استعمارکی چالوں کا نتیجہ تھے جنہیں کبھی عالم اسلام نے صحیح طورپر سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ورنہ ہر مذہب میں فکری اور نظریاتی امتیازات موجود ہیں مگر انہیں اختلاف کا بہانہ نہیں بنایاجاتا۔ہمارے مسلکی امتیازات کو ہمیشہ خونریز شکل دینے کی کوشش کی گئی اور اسکا براہ راست فائدہ دشمن کو پہونچا۔شام میں علویوں پر مسلسل حملوں کے بعد مغربی میڈیا نے یہ مشہورکردیاکہ ایک بارپھر شیعوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور ایساکرنے والاگروہ سنّی ہے ۔جب کہ ہئیت تحریرالشام سے جتنی تنظیمیں اور گروہ منسلک ہیںسب ایک نظریے کے حامل نہیں ہیں ۔اس کے باوجود یہ کوشش کی جارہی ہے کہ شیعہ وسنّی نزاع کو فروغ دیاجائے ۔اس کا فائدہ غزہ اور لبنان کی صور ت حال سے نمٹنے میں استعمار کو پہونچے گا۔بالآخر فلسطین کی آزادی اورقبلۂ اول بیت المقدس کی بازیابی پر شیعہ وسنّی کیسے متفق ہیں؟کیا اسماعیل ہنیہ اور یحیٰ سنوار جیسے سینکڑں افراد نے سنّی مکتب فکر کے لئے شہادت پیش کی ہے ؟کیا سیدحسن نصراللہ اور ہاشم صفی الدین اور حزب اللہ کے جانبازوں نے شیعوں کے لئے قربانیاں دی ہیں ؟کیا حوثی اپنے نظریے کی ترویج کے لئے لڑرہے تھے؟ہرگز نہیں! ان کی نگاہ میں اس سے بلند مقاصد کارفرماتھے ۔وہ پوری امت مسلمہ اور عالم اسلام کی سربلندی کے لئے میدان عمل میں تھے ۔فرقوں اور مسلکوں میں بانٹ کر ان شہداء کی قربانیوں کی عظمت کو کم نہ کیاجائے ۔

شام کا خونیں مقتل!


جنگ بندی دشمن کی شکست مبین کا نتیجہ تھی ۔لہذا اب شکست کی بوکھلاہٹ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔شام میں اقتدار کی تبدیلی بھی اسی سلسلےکی ایک کڑی ہے ۔ورنہ کسی بھی ملک میں وہاں کے عوام کے ذریعہ انقلاب آتاہے ،خارجی لوگوں اور طاقتوں کی بناپر نہیں ۔ہئیت تحریرالشام سے جو جنگجو وابستہ ہیں ان کی اکثریت خارجی ہے ۔اس لئے اس انقلاب کو عوامی انقلاب نہیں کہاجاسکتا۔اگر یہ انقلاب عوامی ہوتا تو اس میں شام کے تمام حلقوں اور مذاہب کی نمائندگی ہوتی ۔مگر چند تنظیموں اور خارجی جنگجوئوں کی بنیاد پر ہونےوالی اقتدار کی تبدیلی استعماری طاقتوں کے زیر اثر ہے ۔اس کا اندازہ شامی فوجی مراکز کی تباہی ،اسلحہ خانوں کی بربادی اور شامی سرحدوں میں اسرائیلی فوجوں کے نفوذ سے ہوجاتاہے ۔بہترہوتاکہ احمد الشرح یا سابق جولانی شامی لوگوں کے قتل عام کے بجائے اسرائیل اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے خلاف نبردآزمائی کرتے ۔اسرائیلی فوجوں نے شام کے جن علاقوںپر قبضہ کیاہے انہیں آزاد کرانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ اس پر احمد الشرع خاموش ہیں ۔انہوں نے اب تک اسرائیل نوازی کاکھلا ثبوت دیاہے کیونکہ انہیں اقتدار پر مسلط کرنے میں انہیں طاقتوں کا ہاتھ ہے ۔اس لئے شیعہ وسنّی دونوں شام کی موجودہ صورت حال کا بغورجائزہ لیں اور کسی سازش کا شکار نہ ہوں۔دشمن اپنی شکست کی بوکھلاہٹ سے پریشان ہے ،اس کی مسرت کا ذریعہ نہ بنیں۔آخر میں یہی کہاجاسکتاہے کہ جب تک کسی ملک کے عوام مزاحمت کے لئے تیار نہ ہوں ،وہاں خارجی طاقتیں بھی ان کی مدد سے گریز کرتی ہیں ۔بشارالاسد کے فرار اور اقتدار کی تبدیلی کے وقت یہی صورت حال کارفرماتھی ۔شامی عوام نے مزاحمت سےدامن بچایاجس کا انجام اب ان کےسامنے ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha