تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | 7 اکتوبر 2023 کو "طوفان الاقصٰی" کا آغاز ہوا، جو فلسطینی عوام کے حقوق اور عدل و انصاف کے حصول کے لیے ایک لازمی ردعمل تھا۔ صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے ان پر ظلم و ستم کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا، جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا اور ان کی زندگی کو تباہ کرنا تھا۔ ہر ظلم کے خلاف ردعمل اس کی قوت، توانائی اور جذبے کے برابر ہی ہوتا ہے، اور یہ بات دنیا نے مشاہدہ کی۔ یہ زندہ ضمیر اور زندہ قوم کی علامت ہے، اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
تاریخ کے اوراق میں یہ بات درج ہو چکی ہے کہ صیہونی حکومت نے کتنے بے گناہ بچوں، خواتین، ضعیف العمر افراد، مریضوں، مساجد، اسپتالوں، مدرسوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، کتب خانوں اور رہائش گاہوں کو نیست و نابود کر دیا۔ اس کے علاوہ، صحافیوں پر بمباری، پانی، خوراک اور دواؤں کا محاصرہ اور شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس ظلم اور غیر انسانی سلوک کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، جن میں ایشیا، افریقہ، یوروپ، امریکہ، آسٹریلیا، حتیٰ کہ خود اسرائیل میں بھی عوام سڑکوں پر نکلے۔ امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں طلباء اور پروفیسران کی گرفتاریوں نے بحث و مباحثے کو جنم دیا، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ کئی عرب ممالک کے حکمرانوں نے اپنے ہی عوام پر سختی کرتے ہوئے مظاہروں کو کچل دیا، حالانکہ قرآن کریم میں واضح ہے کہ اللہ ظالموں کو کبھی نہیں بخشتا۔
امن، محبت، ہمدردی، بھائی چارے اور ترقی کے وعدے کرنے والے اب سمجھ چکے ہیں کہ کون امن و انسانیت کا محافظ ہے اور کون اسلحہ و موت کا سوداگر ہے؟ دہشت گردی، ان کی تربیت، فنڈنگ اور اپنے مفادات کے لیے دہشت گردوں کا استعمال کون کر رہا ہے؟
جہاد صرف خدا کی راہ میں اور خدا کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے درست ہے۔ حق، عدل اور توحید کے لیے جدوجہد کرنا اور ظلم و فساد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہی صحیح جہاد ہے۔ فلسطینیوں کی جنگ "طوفان الاقصٰی" اسی اصول پر مبنی ہے، کیونکہ اسرائیل نے ستر سال سے ان کے حقوق غصب کر رکھے ہیں، عدل و انصاف کو پامال کیا ہے، اور قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر کے جارحیت کر رہا ہے۔
اسرائیل مسلسل اعلیٰ رہنماؤں، کمانڈرز، اور جنرلز کو شہید کرتا رہا ہے، جن میں قاسم سلیمانی، ابو مہندس، اور حماس کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ جیسے افراد شامل ہیں۔ اسرائیل کے وہم و خیال میں تھا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر طاقت ہے، لیکن "ابابیل" کی چھوٹی کنکریوں نے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظ اللہ نے 4 اکتوبر 2024 کو تہران یونیورسٹی، امام خمینی (رح) کی آمد پر ایک تاریخی نماز جمعہ کی قیادت کی۔ آپ نے امت محمدی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہوں، اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و استقامت کو ولایت کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے واضح کیا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تفرقہ پھیلانا دشمن کی سازش ہے، اور ملت اسلامیہ کے دشمن وہی ہیں جو فلسطین اور لبنان کے دشمن ہیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آپریشن "طوفان الاقصٰی" کو ایک درست، منطقی اور قانونی دفاع قرار دیا۔ انہوں نے تمام مقاومتی گروہوں اور ممالک جیسے لبنان، یمن، عراق، شام، اور دیگر پڑوسی ممالک کا فرض قرار دیا کہ وہ فلسطینی عوام کا دفاع کریں۔ آپ نے واضح کیا کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرنے والوں پر تنقید کرے۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کا دفاع تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ آپ نے دشمن کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم غمزدہ ہیں، لیکن اس کا مطلب ہماری کمزوری نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کی پیشرفت کبھی رکنے والی نہیں، اور مزاحمت اپنی شہادتوں کے باوجود کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی، بلکہ فتحیاب ہوگی۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں" (قرآن 3:169)۔ آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو برداشت کرنے والوں کی حفاظت فرمائے اور ان کے لیے صبر و سکون کا سبب بنے۔
اسلامی انقلاب آج ایک مضبوط درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں ہر خطے تک پھیل چکی ہیں، اور اس کی آبیاری شہداء کے خون سے جاری ہے۔ یہ درخت انسانی، اسلامی اور ایمانی ہے اور اس کی حفاظت پروردگار عالم کے سپرد ہے۔