حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کے ثقافتی و سماجی مرکز تبیان کے سربراہ حجت الاسلام سید عیسی حسینی مزاری نے مشہد میں منعقدہ "7 اکتوبر" کے عنوان سے تحلیلی اور تحقیقی نشست میں کہا: ایران کا آپریشن "وعدہ صادق ۲" اور اسرائیل پر میزائل حملہ دنیا کے بڑے واقعات میں سے ایک ہیں، اس آپریشن نے دنیا میں ایسی تبدیلی پیدا کی جو واقعی حیرت انگیز تھی، اسلامی جمہوریہ ایران نے اس آپریشن کے ذریعے صہیونی حکومت کی اس طاقت کو پاش پاش کر دیا جسے وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیش کر رہی تھی اور جس کے طاقتور حمایتی موجود ہیں۔
گزشتہ روز مشہد میں منعقدہ اس نشست کے دوران حجت الاسلام سید عیسی حسینی مزاری نے کہا: اس مہینے میں "وعدہ صادق" اور ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملہ ایک اہم واقعہ ہے جس نے دنیا بھر میں تبدیلی کی لہر پیدا کی۔ ایران نے آپریشن وعدہ صادق ۲ کے ذریعے صہیونی حکومت کی طاقت کو توڑ دیا اور اس کے حمایتیوں کو حیران کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا: اسرائیل کی دھمکیوں کے باوجود رہبر معظم انقلاب کی نماز جمعہ میں شرکت اور آپریشن وعدہ صادق 2 کے بعد ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کے دورے، دنیا کے لیے حیرت کا باعث بنے۔ ایران کے ان اقدامات نے صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کو شدید جھٹکا دیا۔
حجت الاسلام حسینی مزاری نے مزید کہا: آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران اسلامی مزاحمت کا سب سے بڑا محور ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران اپنے اہل سنت بھائیوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اسلامی دنیا کے لیے یہ ایک اہم پیغام ہے کہ شیعہ وحدت اور تقریب کی بات کرتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس راستے کو جاری رکھا ہے اور اس ثقافت کو پھیلایا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن اور روایات اہل بیت علیہم السلام کے مطابق مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہونا چاہیے اور انہیں ایک دوسرے کی حمایت کرنی چاہیے۔ امام خمینیؒ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اتحاد کے اس نظریے کو دوبارہ زندہ کیا، اور اس اتحاد کے ثمرات میں سے ایک قدس اور فلسطین کی حمایت ہے۔
افغانستان کے ثقافتی و سماجی مرکز تبیان کے سربراہ نے 7 اکتوبر کو "طوفان الاقصی" کی سالگرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: حماس اور جہاد اسلامی کے حملے اسرائیل کے خلاف بہت بڑی کامیابی تھے۔ ان فلسطینی تحریکوں کی جدوجہد نے اسلامی دنیا میں نئی روح پھونک دی اور اسلامی دنیا کے اتحاد اور طاقت کے امکانات کو فروغ دیا، جبکہ صہیونی حکومت اور اس کے حمایتیوں کی تباہی کے امکانات میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا: آج اسرائیل کے جرائم کی مذمت اور اس کے خلاف نفرت کا دائرہ امریکہ تک پھیل چکا ہے، جہاں یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اسرائیل کی مخالفت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کو ایک منحوس اور ظالم حکومت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور اس کا اثر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ظاہر ہوا، جہاں نیتن یاہو کی تقریر کے دوران زیادہ تر شرکاء ہال سے باہر چلے گئے۔