۴ مهر ۱۴۰۳ |۲۱ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 25, 2024
مجلۂ تعلیم و تربیت

حوزہ/انجمنِ فقہ تربیتی کا بارہواں علمی تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“ ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کی کوششوں سے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمنِ فقہ تربیتی کا بارہواں علمی تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“ مدرسہ فقہ و اصول جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے تحت چھپ کر منظر عام پر آ گیا ہے۔

فقہ اسلامی میں مکلّف کے تمام اختیاری اعمال کی طرح، تعلیمی و تربیتی طرزِ عمل کے لئے بھی حکم موجود ہے۔ فقہ تربیتی تعلیم و تربیت سے منسلک افراد یعنی اساتذہ اور مربیوں کے اختیاری افعال کے لئے اجتہادی اور استنباطی طریقے سے حکم معین کرتا ہے۔

دینی مراکز میں تعلیم و تربیت کا شعبہ باقی تمام تعلیمی شعبوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ حوزہ علمیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کی اصلاح، تعلیم و تربیت، تبلیغ دین اور اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کا علمبردار ہے، اس لئے حوزہ علمیہ لوگوں کی شرعی ذمہ داریوں کی تشخیص اور تعیین کو اپنا وظیفہ سمجھتا ہے، اس کا لازمہ یہ ہے کہ علمی میدان میں یہ شعبہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ مجلۂ تعلیم و تربیت انجمنِ فقہ تربیتی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اب تک اس علمی تحقیقی مجلے کے بارہ شمارے منظر عام پر آ گئے ہیں۔

اس علمی تحقیقی مجلہ کے چیف ایڈیٹر معروف کالم نگار، محقق اور جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد جناب ڈاکٹر محمد لطیف مطہری ہیں، جن کی کوششوں سے یہ علمی تحقیقی مجلہ منظر عام پر آرہا ہے۔

اس جدید شمارہ کے مقدمے میں آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای(مدظلہ العالی) کا یومِ استاد کے دن اساتذہ کرام سے جو خطاب فرمایا تھا، اسے نقل کیا گیا ہے تاکہ اساتذہ کرام تعلیم و تربیت کے میدان میں بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ رہبرِ معظم انقلاب فرماتے ہیں: استاد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ امانت اسے سونپی گئی ہے، اس کے پاس جو امانت رکھی گئی ہے اور جسے صحیح و سالم بلکہ زیادہ قیمتی بن کے نکلنا ہے، وہ سب سے عزیز امانتیں ہیں، سب سے پیاری امانتیں، یعنی یہ بچے جو آپ کے ہاتھوں میں ہیں، ظاہر ہے ملک کے نوجوان اور بچے انمول موتی ہیں، ملک کے لئے بھی اور خانوادے کے لئے بھی۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو، اپنے بیٹے کو، اپنی بیٹی کو استاد کے حوالے کیا ہے۔ یہ بہت قیمتی امانت ہے اور یہ امانت آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ سادہ ورق ہے جس پر کوئی تحریر نہیں ہے، کسی بھی قسم کا نقش اس پر کھینچا جا سکتا ہے۔ یہ نقش و نگار بنانے والے آپ ہیں۔ یہ آپ کے زیر سایہ زیادہ قیمتی بن کر باہر نکلے، یہ امانت داری آپ بہترین انداز میں انجام دیجئے۔ اخلاقی اعتبار سے بھی، علمی اعتبار سے بھی، برتاؤ اور طرزِ سلوک کے اعتبار سے بھی، آگاہی بڑھانے اور دانائی میں اضافے کے اعتبار سے بھی، اس امانت کے اندر آپ علم و دانائی کی روح ڈالیں۔ اگر ہمارا استاد دیندار اور دین پر عمل کرنے والا ہوگا تو یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہی صورت حال ہوگی۔

مقالات کی تفصیلات:

پہلے مقالے کا عنوان فقہی حکم حضانت (پرورش) کا تربیتی تجزیہ و تحلیل ہے، اس مقالے میں تربیتی نقطۂ نظر سے فقہی حکم حضانت کا تربیتی جائزہ لیا گیا ہے، اس تحقیق میں توصیفی اور تحلیلی طریقے سے فقہی اور تربیتی منابع سے بچوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بچوں کی حضانت (پرورش) کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ فقہی اعتبار سے حضانت احکامات الٰہی میں سے ایک حکم ہے اور اس کے مطابق بچوں کی حفاظت ان کے سرپرستوں پر واجب ہے، بچے کی پرورش اور حضانت کا حکم بچے کی مصلحت اور اس کی تربیت پر مبنی ہے، جس پر فقہ میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، حضانت ایک دلسوز اور قابلِ اعتماد شخص کی سرپرستی میں ہونا چاہیے، تاکہ اسے کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ صاحبان اولویت حضانت کے لئے جو شرائط موجود ہیں اسی طرح عوامل سقوط حضانت یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ بچے کی جسمانی، ذہنی اور احساساتی پہلوؤں کے لحاظ سے صحیح پرورش ہی حضانت کا اصل ہدف اور دین اسلام کا مقصود ہے۔ اسی لیے جب صاحب حضانت میں شرائط اور صلاحیت ختم ہو جائے تو اسے کسی باصلاحیت اور صاحب شرائط کے سپرد کیا جاتا ہے۔ آج کل کے معاشرتی مسائل میں سے ایک تربیت اور حضانت سے محروم بچے ہیں اور فقہی اور تربیتی نقطۂ نگاہ سے ان کی پیدائش کے ابتدائی دنوں سے ہی حضانت اور ان کی پرورش کر کے اس اہم مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

دوسرے مقالے کا موضوع نہج البلاغہ اور جوان نسل کی فکری و ذہنی تربیت کے اصول ہے۔ جوانی کا دور انسانی زندگی کا اہم ترین دور ہے جس میں انسان کی ہدایت اور ضلالت دونوں کا قوی امکان پایا جاتا ہے اور جوانی کے دور میں انسان کا ہر عمل، انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لہٰذا اس دور میں نسل جوان کی تربیت کا اہتمام ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ جوانوں کی تربیت اور اصلاح ہی انسانی سماج کی اصلاح اور ترقی کی ضمانت ہے، اسی ضرورت کے پیشِ نظر نہج البلاغہ سے مولائے کائنات (ع) کے فرامین کی روشنی میں جوان نسل کی فکری اور ذہنی تربیت کے اصول بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہدف جوان نسل کو تربیت کے اہم اصول سے روشناس کرانا ہے جس کے لئے مولا (ع) کے فرامین میں بیان شده اہم ترین اصول کو مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

تیسرے مقالے کا موضوع رہبرِ معظم کے قرآنی افکار کی روشنی میں مثالی خاندان کی خصوصیات ہے۔ خاندان تعلیم کے میدان میں موروثی اور ماحول کے لحاظ سے ایک اہم ترین عنصر ہے اور اس کی تشکیل کا سب سے اہم مقصد نئی نسل کی تشکیل اور پرورش اور اعلیٰ تعلیمی اہداف کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ رہبر معظم انقلاب دام ظلہ العالی فرماتے ہیں: خاندان معاشرے کا پہلا مرکز ہے اور ثقافت، فکر، اخلاق، روایات اور جذبات کو ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک منتقل کرنے کے اہم عوامل میں سے ہے۔ خاندان کے افراد میں، ماؤں کا بچے پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے، خاص طور پر ان خاندانوں میں جن کا زندگی گزارنے کا فطری طریقہ ہے اور اسلامی نمونوں اور روایات کے مطابق؛ اس بناء پر ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین غذا کے طور پر جانا جاتا ہے اور ماں کے بازو بچوں کی پرورش کے لیے بہترین جگہ ہیں۔

چوتھے مقالے کا اولاد کی قرآن و سیرت کی نگاه میں اقتصادی تربیت ہے۔ اسلامی اقتصادی تربیت کا مقصد ذاتی اقتصادی مسائل سے لیکر اجتماعی اور ملکی اقتصادی مسائل کی گرہیں کھولنا ہے، ہماری بہت سی مشکلات کا ایک سبب اقتصادی تربیت کا نہ ہونا یا ایسی تربیت کا ہونا ہے جو ناقص ہے، کوشش کی گئی ہے کہ ایک ایسے اقتصادی تربیتی نظام سے آشنائی ہو جو دنیا و آخرت میں سعادت کی منزل تک پہنچائے۔جب ہم قرآنی صدا "ان الدین عنداللہ الاسلام" سنتے ہیں تو ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، جس نے انسانی زندگی کے بارے میں گود سے گور تک تربیت کا سامان فراہم کیا ہے۔ اگر ہم اپنی فکری اور عملی رہنمائی کے لیے اس مکتب سے روشنائی حاصل کریں تو "فی الدنیا حسنہ و فی الآخرۃ حسنہ "کے مصداق قرار پائیں گے۔

پانچویں مقالے کا عنوان امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نگاہ میں تربیتی اصول ہے۔ انسانی معاشرے کی اصلاح اور بہتری میں تعلیم اور تربیت کا بنیادی کردار ہوتا ہے، تربیت کے ذریعے کسی بھی قوم کے اچھے افکار، اخلاق اور ثقافت کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر سکتے ہیں۔ انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور استعداد کو نکھارنے کا نام تربیت ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے اور اصول بیان کئے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تربیت کے لئے سکولوں کے حوالے کر کے تمام تر تربیتی ذمہ دار انہیں قرار دیتے ہیں، جس کی تمام تر خوبیوں کے باجود بچوں کے اخلاقی، فکری اور عبادی پہلوؤں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے، اس مقالے میں امیر المومنین ؑ کے بیان کردہ تعلیم اور تربیت کے اصولوں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چھٹے مقالے کا عنوان اسلام کی نگاہ میں خاندانی نظام کے اہم وظیفے ہے۔ خاندان اور اس کے اہم وظائف کی طرف اسلام نے ابتدا ہی سے اشارہ کیا ہے، جبکہ دوسرے ادیان اور مذاہب میں اس حد تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پیامبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ابتدا ہی میں "وانذر عشیرتک الاقربین" کی بنیاد پر اس کی اہمیت اور اثر گزاری کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، اس مقالے کا مقصد انہی اہم وظائف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے دیگر پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنا ہے، لہذا اس مقالے میں اسلام میں خاندان کی اہمیت، مقام اور اس کے اہم وظائف کی طرف اشارہ اور تحليل کرنے کے ساتھ متون اصلی اور مدلل طریقے سے اس کے مختلف زاویے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ساتویں مقالے کا عنوان ریاست کا تعلیمی نظام سیرت النبی ﷺکی روشنی میں ہے۔ دورِ نبویﷺمیں موجود نظام تعلیم کو سمجھنے کے لئے اس کے بنیادی خدوخال پر غور کرنا ضروری ہے، سیرت نبوی کی روشنی میں تعلیم و تربیت میں پہلا قدم خودی کی تلاش ہے، ہماری ریاست چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے، لہٰذا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی نظام کو اس طرح تشکیل دے جو اخلاق کو عروج بخشنے میں معاون اور مددگار ثابت ہو، جس کے لئے سیرتِ پیغمبر اکرم ﷺ ہمارے لئے بہترین آیئڈیل ہے۔ جس کی پیروی کرکے ہی ہم اعلیٰ انسانی صفات سے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو مزین کرسکتے ہیں، یہ تحقیق ایک طرح کی بنیادی نظریاتی تحقیق ہے اور حاصل کردہ مواد کو کتاب خانے کی روش کے طریقۂ کار سے تجزیہ کرنے کے لئے جمع کیا گیا ہے، اس مقالے میں ریاست کے تعلیمی نظام کو سیرتِ رسول اسلامﷺ کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .