ہفتہ 28 دسمبر 2024 - 06:30
روایات کی روشنی میں جوان اور جوانی کی اہمیّت

حوزہ/قرآن کریم، پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہ معصومین (ع) نے جوانی کو خدا کی سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک اور انسانی زندگی کی سعادت کے عظیم اثاثوں میں سے ایک اثاثہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے زندگی کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے جن کی خصوصیات کمزوری، طاقت اور ثانوی کمزوری ہیں، جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر مولانا محمد لطیف مطہری

حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن کریم، پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہ معصومین (ع) نے جوانی کو خدا کی سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک اور انسانی زندگی کی سعادت کے عظیم اثاثوں میں سے ایک اثاثہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے زندگی کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے جن کی خصوصیات کمزوری، طاقت اور ثانوی کمزوری ہیں، جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔ اسلامی نصوص میں جوانی کے بارے میں دو قسم کے معارف سودمند ہیں ۔ ایک :وہ روایتیں جو جوانی کی اہمیت اور قدر کو بیان کرتی ہیں۔ دوسرا:وہ روایات جن میں جوانی کی توصیف اور نوجوانوں کی جسمانی، جذباتی اورروحانی خصوصیات وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ دین اسلام میں جوانی کا زمانہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کا انسانی زندگی کے کسی دوسرے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ اسلامی روایات میں جوانی کی اہمیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے تاکہ انسان اس قیمتی اورانمول خدادادی نعمت کو بہتر طریقے سے درک کرتے ہوئے اس اہم دور سے بہترین استفادہ حاصل کرسکیں۔

جوان زندگی کے مختلف طریقوں کو آزمانے کے لئے جدوجہد اور تلاش کرتا ہے۔ یہی تلاش اسے مجبور کرتی ہے کہ لوگوں کے مختلف رویوں اور رفتار کی جانچ پڑتال کرے اور بہترین رفتار اور اقدار کا انتخاب کرے۔ جوانی کے دور میں انسان تکامل کے مرحلے میں پہنچتا ہے، ذہانت بھی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے جوان ہر چیز کو سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوانوں کے دل کی نرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تمام لوگوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کی تلقین کی ہے، فرماتے ہیں:( اوصيكُمْ بِالشُّبّانِ خَيْرا فَاِنَّهُمْ اَرَقُّ اَفـْئِدَة) ؛ میں آپ لوگوں کو جوانوں کے ساتھ نرمی برتنے کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ ان کا دل نرم ہوتا ہے۔ امام علی علیہ السلام کے نزدیک جوانی کی قدر اس کے کھونے سے ہی معلوم ہوتی ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: (شَیْئانِ لایَعْرِفُ فَضْلَهُما اِلّا مَنْ فَقَدَهمُا؛ اَلشبَّابُ وَالْعافِیةُ) دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر کوئی نہیں جانتا، جب تک کہ وہ ان کو کھو نہ دے: جوانی اور صحت۔

مذہبی تعلیمات میں پاکیزگی کو جوانی کے دور کی خصوصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس قیمتی دور کو تزکیہ نفس اور تقرب الہی کے لیے استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ روایات کی رو سے جوانوں کو چاہئے کہ وہ بڑھاپے اور مختلف دلی لگاؤ سے پہلے خود کو اچھے اخلاق سے مزین کریں۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے: (فَضلُ الشّابِّ العابِدِ الذى تَعَبَّدَ فى صِباهُ على الشیخِ الذى تَعَبَّدَ بعدَ ما کبرَت سِنُّهُ کفَضلِ المُرسَلِینَ على سائرِ الناسِ ) ایک عابد جوان کی فضیلت جس نے جوانی میں بندگی کی راہ انتخاب کی ہو اس عمر رسیدہ عابد سے زیادہ ہے جو اپنی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں عبادت کی طرف متوجہ ہوا ہو، جس طرح خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کو دوسرے تمام لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔

دوسری طرف بعض روایات میں، ہمارے دینی رہنما جوانوں سے چاہتے ہیں کہ وہ سیکھنے کا موقع ضائع نہ کریں، کیونکہ جوانی میں سیکھنے کی ارزش اور قدر کا موازنہ استحکام اور دوام کے لحاظ سے زندگی کے دوسرے ادوار سے نہیں کیا جا سکتا۔سیکھنے کے اعتبار سے جو فرق جوانی اور بڑھاپے میں موجود ہےجیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (مَن تَعَلَّمَ فی شَبابِهِ کانَ بِمَنزِلَهِ الوَشمِ فِی الحَجَرِ، ومَن تَعَلَّمَ وهُوَ کَبیرٌ کانَ بِمَنزِلَهِ الکِتابِ عَلى وَجهِ الماءِ) جو جوانی میں سیکھتا ہے اس کا علم پتھر پر کندہ کرنے جیسا ہے اور جو بڑا ہونے کے بعد سیکھتا ہے پانی پر لکھنے جیسا ہے۔

۵۔ دیندار جوان ،خداوند متعال کے لئے باعث فخر

انسانی روح کی بہترین معنوی رشد اور نشوونما کا وقت جوانی کے ایام ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام جو وحی کو دریافت کرنے کی لیاقت رکھتے تھے اور مقام نبوت پر فائز ہوئے وہ سب کے سب اپنی جوانی کے ایام میں خداوند متعال کی حقیقی عبادت کی وجہ سے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی اس پر تاکید فرمائی ہے، جہاں آپ فرماتے ہیں: (انّ أحبّ الخلائق الی اللّه تعالی شابٌّ حدث السّنّ فی صورةٍ حسنةٍ جعل شبابه و ماله فی طاعة اللّه تعالی ذاک الّذی یباهی اللّه تعالی به ملائکته فیقول عبدی حقّاً)بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز وہ کم عمر اور خوبصورت جوان ہے جو اپنی جوانی اورخوبصورتی کو خداوند متعال کی اطاعت اوربندگی میں صرف کرتا ہے ۔خداوند متعال اپنے برتر فرشتوں کے سامنے اس جوان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ میرا سچا بندہ ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام دوسروں سے زیادہ اپنے قول پر عمل کرتے تھے ۔آپ جوانی میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ آپ فرماتے ہیں : (اجتهدت فی العبادة و انا شابٌّ فقال لی أبی یا بنیّ دون ما أراک تصنع فانّ اللّه عزّ وجلّ اذا أحبّ عبداً رضی عنه بالیسیر)

میں بچپن میں عبادت کی خاطر بہت سعی و کوشش کرتا تھامیرے والد بزرگوارنے مجھ سے فرمایا: اےمیرے بیٹے! جو کچھ عبادت بجا لا رہے ہو اس میں کمی کر دو، کیونکہ اگرخداوند متعال کسی بندے سے محبت کرے تو تھوڑی سی عبادت پر بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے۔

خداوند متعال کی عبادت میں مصروف بندوں کے اس ہجوم میں سے خداوند متعال جوان عابد کی عبادت پر فرشتوں پر فخرو مباہات کرتا ہے ۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روایت میں فرماتے ہیں :

(قال رسول اللّه صلي الله عليه و آله : إنَّ اللّه َ تَعالى يُباهي بِالشّابِّ العابِدِ المَلائِكَة ، يَقولُ : اُنظُروا إلى عَبدي ! تَرَكَ شَهوَتَهُ مِن أجلي )اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے عبادت گزار جوان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو۔ اس نے میرے لیے اپنی خواہشات نفسانی کو ترک کر دیا ہے۔

انسانی زندگی کا سب سے حساس مرحلہ جوانی ہے، جس میں انسانی زندگی کی 15 سے 35 سال کی عمریں شامل ہیں، اس مرحلے میں انسان بچگانہ حالات یابچپن کے ایام کے تصور کو چھوڑ کر زندگی کے حقیقی اور واقعی ماحول میں داخل ہوتا ہے۔انسان کی باطنی قوتیں رشد کر لیتی ہے اور شہوت اورغضب آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے جہاں عقل کی طاقت سے ان کا ٹکراو علنی ہو جاتا ہے۔ البتہ بچپن اور جوانی کی تعلیمات زندگی کے اس مرحلے میں بھی انسان کی مدد کر سکتی ہیں۔ لیکن ایسی تعلیمات کا صحیح اثر نہیں ہو سکتا اور وہ مضبوط کردار ادا نہیں کر سکتے اگر انہیں مذہبی عقائد کے ساتھ محکم اور مضبوط نہ کیا گیا ہو ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رسول اللّه صلي الله عليه و آله : فَضلُ الشّابِّ العابِدِ الَّذي تَعَبَّدَ في صِباهُ عَلَى الشَّيخِ الَّذي تَعَبَّدَ بَعدَ ما كَبُرَت سِنُّهُ كَفَضلِ المُرسَلينَ عَلى سائِرِ النّاسِ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوانی میں عبادت کی طرف متوجہ ہونے والے نوجوان کی فضیلت اس بوڑھے پر جو جوانی کے ایام گزرنے کے بعد خدا کی عبادت کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے اس طرح ہے جیسے انبیاء علیہم لسلام کو دوسرے انسانوں پر فضیلت حاصل ہے۔

۶۔ جوانی،نئی ذمہ داری قبول کرنے کا زمانہ

نوجوانوں کی مسئولیت پذیری خود فرد میں ایک قسم کی روحانی، ذہنی، فکری اور جسمانی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس نے زندگی کے اس دور کو دوسرے ادوار پر فوقیت دی ہے۔

(نَوَادِرُ اَلرَّاوَنْدِيِّ ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ آبَائِهِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : تَجِبُ اَلصَّلاَةُ عَلَى اَلصَّبِيِّ إِذَا عَقَلَ وَ اَلصَّوْمُ إِذَا أَطَاقَ والحدود اذا احتلم)امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بچہ ذہنی بلوغت کو پہنچ جائے اور قدرت رکھتا ہو تو اس پر نماز اور روزہ واجب ہو جاتا ہے اور جب بچہ جسمانی بلوغت کو پہنچ جائے تو اس پر حد (اور گناہ کی سزا) عائد کردی جائے گی۔

۷۔قیامت کے دن جوانی کے بارے میں سوال

قیامت کے دن انسان سے مخصوصا جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اس قیمتی وقت کو کس چیز میں صرف کر دیا ہے ؟(قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ وَ عَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اِكْتَسَبَهُ وَ فِيمَا أَنْفَقَهُ وَ عَنْ حُبِّنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ )

ابو اسحاق بن موسیٰ بن جعفر اپنے والد سے اور وہ اپنے باپ دادا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن بندہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے: ۱۔ عمر کے بارے میں ۲۔ جوانی کے بارے میں ۳۔ مال کے بارے میں ۴۔ اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کے بارے میں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

(الإمام الصادق عليه السلام ـ كانَ فيما وَعَظَ بِهِ لُقمانُ ابنَهُ ـ : وَاعلَم أنَّكَ سَتُسأَلُ غَدا إذا وَقَفتَ بَينَ يَدَيِ اللّه ِ عز و جل عَن أربَعٍ : شَبابِكَ فيما أبلَيتَهُ ، وعُمُرِكَ فيما أفنَيتَهُ ، ومالِكَ مِمَّا اكتَسَبتَهُ وفيما أنفَقتَهُ ، فَتَأَهَبّ لِذلِكَ وأعِدَّ لَهُ جَوابا )حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :: جان لو کہ کل جب تم خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے تو تم سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا:۱۔ تم نے اپنی جوانی کہاں صرف کی؟۲۔ اپنی زندگی کہاں گزاردی؟۳۔ اپنی دولت کو کہاں سے حاصل کی؟ ۴۔اور اسے کہاں خرچ کیا؟

ان روایات سے جوانی کی اہمیت کے بارے میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ جوانی کو انسان کے کل عمر کے برابر قراردیا ہے گویا انسان کی پوری زندگی ایک طرف اور اس کی جوانی دوسری طرف۔

۸۔نیک لوگ اورنیکی کا جوان کی شکل میں مجسم ہونا

نیک لوگ جوان نماہوتے ہیں اور آخرت میں اچھے ،نیک لو گ اورنیکیاں جوان کی شکل میں مجسم ہو جائیں گے ۔ اعمال صالحہ اور نیکیوں کا اجر قیامت کے دن حور العین اور خوبصورت بندوں کی شکل میں مجسم ہو کر محشر میں ظاہر ہو نگے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :(إنَّ اَحَبَّ الخَلائِقِ إلَى اللّه ِ شابٌّ حَدَثُ السِّنِّ في صُورَةٍ حَسَنَةٍ جَعَلَ شَبابَهُ و جَمالَهُ لِلّهِ و فِي طاعَتِهِ ذلِكَ الَّذي يُباهِي بهِ الرَّحمنُ مَلائكتَهَ يَقولُ : هذا عَبدِي حَقّا)اللہ کے نزدیک مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب وہ خوبصورت نوجوان ہے جو اپنی جوانی اور حسن کو اللہ اور اس کی اطاعت کی راہ بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی ایسے جوان کے وجود پر فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے: یہ میرا سچا بندہ ہے۔

امام زمان (عج) بھی ایک جوان کی شکل میں ظہور فرمائیں گے اورامام زمان( عج) کے اصحاب و انصار بھی سب جوان ہوں گے۔

(قال الإمام علي عليه السلام : أصحابُ المَهدِيِّ شَبابٌ لا كُهولٌ فيهِم إلاّ مِثلَ كُحلِ العَينِ وَالمِلحِ فِي الزّادِ وَأقَلُّ الزّادِ المِلحُ)امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : مہدی (عج) کے اصحاب جوان ہیں اور بوڑھے ان میں سے تھوڑے ہیں جیسے آنکھ میں سرمہ اور زادراہ میں نمک،کیونکہ مسافرکا سب سے کم زاد راہ نمک ہے ۔

خدا وند متعال نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو جوانی میں ہی مبعوث کیا ہے ۔ اسی طرح اہل بہشت سب کے سب جوان ہو ں گے۔روایت کے مطابق امام حسن اورامام حسین علیہما السلام جنت کے جوانوں کے سردارہیں ۔(اَلْحَسَنُ وَ اَلْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ اَلْجَنَّةِ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :(تعلموا القرآن فانه یأتی یوم القیامة صاحبه فی صورة شاب جمیل.....) قرآن سیکھو، کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے پاس خوبصورت جوان کی صورت میں مجسم ہو کر آئے گا۔

۹۔خوش اخلاق نوجوان معاشرے کا پوشیدہ خزانہ

نوجوانوں کے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنا گویا اجتماعی اہداف اور مقاصد کو عظیم انسانی منابع سے استفادہ کرنے کے لئے منصوبہ بندی سمجھا جاتا ہے۔ دینی منابع میں جوان اورجوانی کو نہایت قیمتی اوربے نظیر دور کے طورپر پیش کیا گیاہے ۔والدین اورذمہ دارافراد جوانوں کے لئے اس عرصہ میں بہترین منصوبہ بندی کر کے معاشرے کی حفاظت کر سکتی ہے۔

نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی کو سماجی اہداف اور نظریات کو حاصل کرنے اور معاشروں کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے بڑے انسانی وسائل کےحصول کے لئے منصوبہ بندی سمجھا جاتا ہے۔

اسلامی نصوص میں اس نکتے پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے کہ اولا: کوئی بھی وسیلہ یا سرمایہ انسانی سرمائے کے برابر نہیں ہے۔ثانیا: انسانی سرمایہ صرف ان کی جسمانی طاقت تک محدود نہیں ہے۔بلکہ بعض اوقات ہماری نظر میں کم سے کم چیز بھی دراصل قیمتی ترین سرمایہ ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر، ایک شخص کی زندگی کے مواقع اور لمحات سب سے نمایاں ذرائع میں سے ہیں، اور اس لیے فرصت کے لمحات میں بھی اس طرح سے صحیح پروگرام بنانا چاہیے جو فرد اور معاشرے کی سعادت کا باعث بنے

دینی متون میں جوان اور جوانی کوایک قیمتی اور باارزش ترین دور کے طورپر ذکر کیا ہے جس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کر کے ایک معاشرے کی مکمل حفاظت کر سکتی ہے۔جوان معاشرے کا بہت ہی قیمتی خزانہ اور اثاثہ شمارہوتا ہے ۔ اگر ہم جوانوں کی تعلیم و تربیت میں کامیاب ہو جائے تو معاشرے کے لیے خوشی ،سعادت اور خوشحالی کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن اگر خدا نخواستہ اس اہم مسئلہ کو نظر انداز کرے اورجوانوں کے مزاج اور رویے مذہبی معیارات کے مطابق نہ ہوں تو یقینا وہ معاشرہ بدبختی کی طرف گامزن ہو گا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں:(اِعْلَمى اَنَّ الشّابَّ الْحَسَنَ الْخُلُقِ مِفْتاحٌ لِلْخَيْرِ ، مِغْلاقٌ لِلشَّرِّ وَ اِنَّالشّابَّ الشَّحيحَ الْخُلُقِ مِغْلاقٌ لِلْخَيْرِ مِفْتاحٌ لِلشَّرِّ )جان لو کہ خوش اخلاق جوان اچھی چیزوں کی کنجی اور برے کاموں کے لئے تالا ہے اور بد اخلاق جوان اچھی باتوں کے لئے تالا اور بری چیزوں کی کنجی ہے۔

۱۰۔ خداوند متعال کی رحمت اور لطف شامل حال ہونا

جوانوں پر خدا کی رحمت اور فضل اس قدر وسیع ہے کہ وہ اس دور میں بعض انسانی خطاؤں اور گناہوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:(فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ .....يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ اَللَّهَ تَعَالَى يُكْرِمُ اَلشَّبَابَ مِنْكُمْ وَ يَسْتَحْيِي مِنَ اَلْكُهُولِ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَكَيْفَ يُكْرِمُ اَلشَّبَابَ وَ يَسْتَحْيِي مِنَ اَلْكُهُولِ فَقَالَ يُكْرِمُ اَللَّهُ اَلشَّبَابَ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ وَ يَسْتَحْيِي مِنَ اَلْكُهُولِ أَنْ يُحَاسِبَهُمْ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا لَنَا خَاصَّةً أَمْ لِأَهْلِ اَلتَّوْحِيدِ قَالَ فَقَالَ لاَ وَ اَللَّهِ إِلاَّ لَكُمْ خَاصَّةً دُونَ اَلْعَالَمِ .........)

اے ابا محمد{ابو بصیر} کیا تم نہیں جانتے کہ خدا تمہارے جوانوں کی عزت کرتا ہے اور تمہارے بوڑھوں سے حیا محسوس کرتا ہے؟میں نے کہا: قربان ہو جاوں، خداوند متعال کس طرح جوانوں کی عزت اوربوڑھے افراد سے حیا کرتا ہے ۔امام نے فرمایا: جوانوں کو عذاب ترک کر کے احترام کرتا ہے اوربوڑھے افراد سے حساب و کتاب لینے سے حیا کرتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر فدا ہو جاوں ،یہ عمل صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے یا تمام اہل توحید کے لئے بھی ہے ؟امام نے فرمایا :نہیں، خدا کی قسم، یہ دوسرے افراد کے ساتھ مختص نہیں بلکہ صرف اورصرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے ۔ نوجوانوں کے ساتھ برتاؤ میں ہمیشہ ان کی عزت و تکریم اور ان کی شخصیت کا خیال رکھنا چاہیے۔

حوالہ جات:

۱۔ اعلام الدین، حسن دیلمی، قم مؤسسہ آل البیت، ص 120.

۲۔ کلینی،اصول کافی، ج 2، ص 87، ح 5.

۳۔تقی ہندی،علی بن حسام الدین،کنزالعمال،ج۱۵،ص۷۷۶،ش۵۷-۴۳۔

۴۔ متقی ہندی،علی بن حسام الدین،کنزالعمال،ج۱۵،ص۷۷۶،ش۵۹-۴۳۔

۵۔مجلسی، بحار الانوار،۸۸،و ۱۳۲۔

۶۔خصال،ج۱،و ۲۵۳،ح۳۱۵۹۷۱

۷۔کلینی،کافی،ج۲،ص۱۳۵۔

۸۔متقی ہندی،کنز العمال،ج۱۵،و۷۸۵،ش۴۳۱۰۳۔

۹۔ مجلسی،بحار الانوار،ج۵۲،و۲۸۷۔

۱۰۔ نعمانی ،محمد بن ابراہیم،الغیبہ،ص۳۱۶۔

۱۱۔متقی ہندی،کنز العمال،ج۱۱،و۴۷۵،ش۳۲۲۳۳۔

۱۲۔ایضا،۳۴۴۔

۱۳۔ کافی، کلینی، ج۶،ص۳۹۹۔

۱۴۔ا مالى طوسى ، ص 302، ح 598۔

۱۵۔کلینی،اصول کافی،ج۸،ص۳۳

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha