حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ مہدوی کنی نے اپنے ایک درس اخلاق میں انسان کی کرامت اور اخلاقی تربیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اخلاق، صرف قوانین اور فقہی احکام تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسان کی سعادت، نجات اور کامیابی کا راستہ ہے۔
آیت اللہ مہدوی کنی نے نہج البلاغہ کی اس حکمت کو یاد دلایا کہ اگر جنت و جہنم نہ بھی ہوں، تب بھی انسان کو مکارم اخلاق کو اپنانا چاہیے، کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔ ان کے مطابق اخلاق کی دو جہتیں ہیں: نیک خصلتیں یعنی مکارم، اور برے اوصاف یعنی رذائل۔ قرآن کریم نے بھی "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم" کے ذریعے کرامتِ انسانی کو ایک بنیادی حقیقت قرار دیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ انسان دو طرح کی کرامت رکھتا ہے: ایک ذاتی، جو خدا نے اس کی فطرت میں رکھی ہے؛ اور دوسری اکتسابی، جو مجاہدت اور تربیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب و تربیت انسان کے لیے ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کھیت کے لیے بارش۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان کا اخلاقی جوہر شکوفا نہیں ہو سکتا۔
مرحوم استاد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جو شخص دوسروں کو ادب سکھانا چاہتا ہے، اسے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے، کیونکہ بے ادب شخص دوسروں کو تربیت نہیں دے سکتا۔
انہوں نے اخلاق، فقہ اور حقوق کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فقہ میں احکام شرعی (واجب، حرام، مستحب، مکروه، مباح) اور حقوق میں قانون کی رعایت اصل ہے، لیکن اخلاق ان سب سے فراتر ہے، کیونکہ اس میں انسان کی نیتیں اور باطنی کیفیتیں بھی شامل ہیں۔ قرآن کے مطابق: "إِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ"، یعنی دل کے ارادے بھی خدا کے ہاں حساب رکھتے ہیں۔
آخر میں آیت اللہ مہدوی کنی نے متنبہ کیا کہ اگر اخلاق و تربیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو فرد اور معاشرہ دونوں تباہی کی طرف جا سکتے ہیں، اس لیے مکارم اخلاق کی جستجو انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔









آپ کا تبصرہ