تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
شمس و قمر ہیں خاک پا سامنے آپ کے حضور
دائمی نور کی ضیاء سرور کائنات ہیں
ارض و سما و بحر و بر صدقہء نام مصطفٰیؐ
وجہٍ صناعتٍ سرور کائنات ہیں
عُشاق سرور کائناتؐ کے سلسلے میں قارئین کرام کے علم میں اضافہ کرنے کی غرض سے یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ آپ کے نور وجود خلقت برواءیتے حضرت آدمؑ کی تخلیق سے 9 لاکھ سال پہلے اور برواءیتے 5-4 لاکھ سال قبل ہوئی تھی، آپ کا نورٍ اقدس، اصلاب طاہرہ اور ارھام مطہرہ سے ہوتا ہوا جب صلب جناب عبداللہ بن عبدالمطلب تک پہنچا تو آپؐ کا ظہور و شہود انسانی بطن جناب "آمنہ بنت وھب" سے مکّہ معظّمہ میں 570 عیسوی یعنی آج سے 1454 سال قبل آپ کے والد ماجد حضرت عبداللہ کے گھر ہوا۔
آپؐ کی ولادت کے وقت متعدد حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے۔ آپؐ پیدا ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر سجدہ خالق ادا کیا۔ پھر آسمان کی طرف بلند کر کے تکبیر کہا اور لااٍلہ اٍلاّ اللہُ انا رسول اللہ زبان پر جاری کیا۔ (چودہ ستارے، صفحہ 46)
خالق کائنات نے سرکار دو جہاںؐ کو اپنا ہادی بنا کر بھیجا۔ مقصد یہ تھا کہ رب العالمین پہچانا جائے۔ خاتم النبیین نے صرف تعرف اور تعریفیں ہی نہیں کیں بلکہ قیامت تک کے لیے مخلوقات کو معبود کے آگے سر جھکانے، اس کی عبادت کرنے اور اس کے احکام کو اپنی زندگی کا ضابطہ حیات بنا دیا۔ اس نکتہ کو مربوط کرنے کے لئے مندرجہ ذیل باتوں پر تدبر و تفکر کی ضرورت ہے۔
پروردگار عالم کا ہر ارادہ مقصد سے پُر ہوتا ہے۔ حضرت محمد مصطفٰیؐ کی بعثت کا بھی ایک مقصد ہے یعنی "اشرف المخلوقات کی بہترین تربیت" جیسا کہ رب العزت سورۃ جمعہ میں ارشاد فرما رہا ہے: "بےشک خدا وند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے لیے انہیں میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں آیات قرآنی سنائے اور ان کے نفوس کو پاک کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ اگرچہ پہلے وہ لوگ ضلالت و گمراہی میں تھے (ضلالت و گمراہی سے نکالنے کے لیے نبیؐ کو مبعوث کیا)۔یہ واضح ہو گیا کہ رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد "لوگوں کو گمراہیوں سے نجات دینا اور ان کی بہترین تربیت ہے۔" سرور کائناتؐ کا بعثت کا مقصد اور ہدف ہے کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کرنا۔ چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے۔ لہٰذا سرکار دوعالمؐ کی امت کی اصلاح کے لیے یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کمال و جمال کی منزل طے کرے اور صراط مستقیم پر گامزن رہے۔
سب سے اہم اور قابل غور و فکر ہے۔ سورۃ احزاب کی 21 ویں آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ فخر موجوداتؐ کے بعثت کا مقصد ہے کہ اے انسان اگر ہم صراط مستقیم کی دعوت دیتے ہیں تو تجھے یک و تنہا اور بے مونس و مددگار نہیں چھوڑا ہے کہ انسان حیران اور سرگردان پھرتا رہے بلکہ خدا نے انسان کے لیے نمونہ اور اُسوہ بھیجا ہے۔ بے شک انسانوں کے لیے سید البشرؐ میں نمونہ موجود ہے۔ اللہ سبحان تعالٰی نے بتایا کہ سید المرسلینؐ یکتا اور بہترین مجسم نمونۂ عمل ہیں۔ اب انسان کو چاہیے کہ خاتم النبیینؐ کے اعمال، اقوال، ان کے معاشرت، کردار، رفتار و گفتار کو دیکھے اور اسے دیکھ کر خود عمل کرتا رہے۔ لہذا انسان اپنے ہر کام میں اللہ تبارک و تعالٰی کے تاجدار انبیاءؐ کی پیروی کرے، یہ عمل دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے۔تمام امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اپنے کردار سازی کے لیے حضرت محمد مصطفٰیؐ کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کرے، آپؐ کی خصوصیات کو اپنائے، اپنے گھر، اپنے خاندان، دوست، معاشرہ، قرعیہ، قصبہ، شہر اور وطن کے افراد کے لیے نمونہ بن کر دکھائے۔ آج اپنے وطن اور بیرون ممالک میں مسلمانوں کو دوسرے اقوام کے افراد کی نظروں میں حقیر سمجھا جا رہا ہے۔ وجوہات کے تجزیے اور معائنہ لازمی ہے۔ حضرت محمد مصطفٰیؐ خوبی "امین اور صادق" جس کا اعتراف دشمن، آتش پرست، بت پرست، یہود اور نصارٰی نے کیا ہے، آج یہ اہم خوبی کا فقدان مسلمانوں میں شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے جبکہ امانت داری اور صداقت اسلام اور مسلمانوں کا علامتی نشںان امتیاز ہے۔ موجودہ دور میں یہ خصلت مسلمانوں کے کردار میں نظر نہیں آرہا ہے۔ آپ کی زندگی سے نایاب گوہر عشاق میں تلاش کریں گے تو مایوسی نصیب ہوگی۔ نایاب گوہر مصطفوی جیسے دوسروں، بچوں، غرباء، غلام، فقراء، جفا کش لوگ، والدین اور ہمسایوں کا احترام نظر نہیں آتا، اصولوں کا پابند نہیں، انصاف اور اہانت کے مقابلے میں رواداری نہیں، اب معاملہ میں ملاوٹ ہے، حرام غذا سے پرہیز نہیں، عفو اور درگزر، صلہ رحمی، سماجی تعلقات، سادہ زندگی، تلاوت قرآن، نرم مزاجی، قدر شناسی، حدود الٰہی کا اجر، رواداری، مہربانی، مہمان نوازی، مشاورت، حلال اور حرام میں فرق، لوگوں کی رعایت اور بھلائی، دوسرے کے حقوق کی رعایت، مومن کے احترام کے لیے اٹھنا اور کام کرنے والے کا ہاتھ چومنا، مومن کی زیارت، حمد، ذکر خدا، مومن کا وعدہ، عہد کا وفا، ذکر، دعا اور اہلیت علیہم السلام سے اجر رسالت میں مودت واقعی میں مسلم سماج اور مسلمانوں میں دکھائی نہیں دیتا۔
اللہ سبحان و تعالٰی رحیم، کریم، غفور الرحیم اور تواب الرحیم ہے۔ نافرمانی کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے جب تک آثار موت نہیں ہے، اتباع رسولؐ واجب و جز ایمان ہے۔ گویا سیرت رسولؐ کو اپنانا ضروری کیوں ہے؟ اگر امت مسلمہ اسلام کے پرچم کو دنیا میں لہرانا چاہتی ہے تو ہر فرد بشر کو حبیب ربانی کے اخلاق و سیرت پر عمل پیراں، قول و فعل، عہد و پیمان، صادق اور امین پر مکمل پابند ہونا ہوگا۔ آپؐ کے اخلاق و سیرت جیسے کاشف الکربؐ کا خداوند عالم کے ساتھ، اخلاق، عبادت اور نماز شب، دلسوزی و مہربانی، مہمان نوازی، بچوں کے ساتھ شفقت، اہل خانہ سے الفت، ہمسایوں کی عزت و احترام، دوستوں سے وفا، غلاموں سے ہمدردی، کفار سے بھی عدل و انصاف، اسیر سے فراخدلی، مسافر سے رحم دلی، عام انسان کے ساتھ حسن اخلاق اپنا شعار زندگی بنانا ہوگی۔ اخلاق کے اہم عنصر ہیں: امانت داری، صداقت، سادگی، صبر و شکر وغیرہ۔ سیرت میں درس، عبرت، عدالت، تبلیغ، عمل، حقوق العباد، مساوات مستورات۔
یہ لازمی ہے کہ ہم آشنا ہوں کہ آخر اخلاق و سیرت کیا ہے؟ رحمت العالمینؐ کے اخلاق و سیرت کو جاننے اور عمل میں لانے کے ساتھ اس کے معنی و مفہوم سمجھیں۔
اخلاق: عربی قواعد کے اعتبار سے اخلاق 'افعال'کے وزن پر ہے اور 'خلق' کی جمع ہے۔
خُلق: انسان کی نفسانی خصوصیات کو کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے خلق، انسان کے بدن کی صفات کو کہا جاتا ہے۔ اخلاق لغت کے اعتبار سے خُلق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: طبیعت، مروت، عادت اخلاق طور طریقہ اور رفتار و گفتار کو اخلاق کہتے ہیں۔ اب لفظ سیرت پر غور کیا جائے۔ 'سیرت' لغوی اعتبار سے عادت، طریقہ، طرز زندگی کے معنی میں ہے۔ سیرت کے معنی میں ہے۔ سیرت کے معنی رفتار اور طور طریقے کے ہیں۔
سورۃ قلم میں احمد مجتبٰی ﷺ سے خطاب کیا جا رہا ہے کہ اے میرے حبیبؐ! آپ خُلق عظیم پر فائز ہیں، اس آیت مبارکہ میں خُلق سے مراد "اخلاق اور حُسن سیرت" کو لیا گیا ہے۔
کس سے توحید کبریا ہو رقم
سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم
اس شخص پر روشنی کس طرح ڈالی جائے جو خود شمس الضحیٰ، ہو 'نہ تیرا جمال ہوتا نا یہ کائنات ہوتی۔' جسکے ڈیوڑھی پر آفتاب بھی سجدہ ریز ہو، ماہتاب اس کے اشاروں پر چلتا ہو۔ ہماری گنہگار زبان، محدود فکر، سمندر میں قطرہ مانند علم، ہمارا ناقص قلم، کمزور دست، نا مکمل عقل، اس عقل کامل کی اخلاق و سیرت کی مدح و ثناء کس طرح کرے جس کی تعریف خدا وند عالم کرتا ہے۔ جس کی مدح خوانی قرآن کریم کچھ اس انداز میں کرتا ہوا نظر آتا ہے: احمد، حامد، محمود، مدثر، مزمل، طٰہٰ، یاسین، بشیر، نظیر، نور العُلا، صدرا الدقہ، مصباح الھدیٰ، کلیم اللہ، حبیب اللہ، فصیح اللسان، النجم الثاقب، امین اور صادق۔
سورۃ نجم کی تیسری اور چوتھی آیت مبارکہ میں رسول ابدؐ کی تعریف میں رب العزت ام الکتاب میں ارشاد فرما رہا ہے کہ رسول اپنی ہوا و ہوس سے کچھ کلام ہی نہیں کرتے بلکہ یہ تو وہی کہتے جو وحی کہتی ہے۔
سورۃ النساء کی 80 ویں آیت میں ارشاد باری ہے "جس نے ہادی نیک کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی۔" سورۃ انفال، آیت 24 میں تنبیہ کی گئی ہے "جب تمہیں اللہ و رسول ؐ حیات کی طرف دعوت دیں تو تمھارا یہ وظیفہ ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہو، چاہے کتنے سنگ ہی سہی خدا اور رسولؐ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
اس امینؐ و صادقؐ کی شان میں کیا کہا جائے جس کے اخلاق و سیرت نے دنیائے کفر کو ریزہ ریزہ کردیا، فارسی آتشکدہ گل ہو گیا اور قیصر و کسریٰ کے کنگرے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے۔ عظمت اتنی زیادہ کہ خدا نے اپنا مہمان بنایا۔ آپؐ کی شان و عظمت یہ ہے کہ جبرئیل امین خدا کا سلام لیکر نازل ہوتے ہیں اور انکساری اس حد تک کہ مکہ کے بچوں کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے۔
ذوالجلال و لا اکرام و جل جلا لہ نے مکرمؐ، طیب و طاہر ؐ کو عالم بشریت کی رہنمائی کے لیے مامور فرمایا جن کی رسالت کے جلووں نے ہمارے دل کے فانوس میں معرفت کی شمع چمکائی۔ اُجالے میں ہم نے اپنے آپ کو بندہ اور اس کو معبود پہچانا۔ وہ نعمت عظمٰی کہ جس کے صدقے میں نور ایماں سے نہال اور دولت سے بے زوال کہ جس کی بدولت متاع دین و اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ وہ کون؟ بے یاروں کا یار، بے مددگاروں کا مدگار، بے وسیلوں کا وسیلہ، بے بھروسوں کا بھروسہ، بے بسوں کا بس، بے کسوں کا کس، ٹوٹے دلوں کا سہارا، اللہ تعالٰی کا پیارا، دونوں جہاں کا مختار، مدینہ منورہ کا تاجدار، جس کے اشاروں پر شمس و قمر پھریں، سب حور و ملک، جن و بشر انہیؐں کا دم بھرتے ہیں۔ چرند و پرند، شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں۔ شفاعت کا تاج انہیںؐ کے سر سجا، آپؐ ہی عرش و فرش کے ظاہری و باطنی خزانوں کے بانٹنے والے ہیں۔
سخی کچھ ہو نواسوں کا صدقہ
صدا دے رہے ہیں صدا دینے والے
طلب تو کرو دین و دنیا کی دولت
ہیں سب کو حبیبؐ خدا دینے والے
ماشاءاللہ! عُشاق حبیبؐ اللہ واقف ہو گئے کہ محمودؐ کے بعثت کا مقصد اور ہدف کیا ہے؟ اخلاق و سیرت کیسی ہے؟ جب حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اللہ تعالٰی کا پیغام یعنی تبلیغ دین شروع کیا تو اکثر عرب دُشمن بن گئے۔ لیکن اس کے باوجود آپؐ کے بد ترین دشمن بھی اپنے مال و اسباب کو محفوظ رکھنے کے لیے آپؐ کے پاس آتے تھے۔ دشمن بھی آپ پر بے پناہ بھروسہ کرتے تھے۔ واقعی میں اگر کھویا ہوا وقار پانا ہے تو ہر معاملات، دینی اور دنیاوی میں اپنے آپ کو امین اور صادق ثابت کرنا ہوگا۔ بعد ازاں، عاجزی اور سادگی بھی اپنی زندگی کے اعمال کا جُز بنانا ہوگا۔ حقیقت میں یہی اتباع محمد مصطفٰیؐ ہے:
کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کل جہاں سے لیکر اپنا ملک، ہندوستان کی سرزمین تک آپؐ کے پیکر بشریت کے اخلاق، سیرت، سادگی اور عاجزی سے مرغوب ہو کر غیر مسلم سماجی اور قومی زندگی میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی ممتاز سیاستداں، ممتا بنرجی نے ہمارے آقاؐ کی حیات طیبہ کی سادگی اور عاجزی اپنی زندگی میں اپناکر گزشتہ دو دہائیوں سے مرغوب الطبع سیاست داں بنی ہوئی ہیں۔ آپؐ کی زندگی سے متاثر ہو کر سیاست کو امانت سمجھا اور ہم ہیں کہ یومِ ولادت کی تاریخ، نالعین، مُو، روحانی یا جسمانی معراج، خد و خال اور دیگر معمولی شئے کو مرکز بحث و نجات بنائے ہوئے ہیں۔
عالم اسلام کے مشہور فقیہ، محدثین اور صفیہ دور کے موثر عالم دین محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی مجلسی جو علامہ مجلسی (1037-1110 ھ) کے نام سے مقبول ہیں جنھوں نے اپنی مشہور کتاب، بحار الانوار، جلد 21، صفحہ 361 میں تحریر کرتے ہیں '۔۔۔۔خدا کی قسم! اگر خدا تمھارے ذریعہ کسی انسان کی ہدایت کردے تو یہ تمھارے لیے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔۔۔' اے وارث رسولؐ! منبر، محراب، مجلس، تبلیغ اور آپؐ کی امت کے حوالے سے ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہیں یا نہیں، ذہن میں سوال گردش کر رہا ہے۔
آپؐ نے اپنا کام 10 ہجری، یعنی 63 سالہ حیات طیبہ میں مکمل کیا۔ 1454 سال بعد اب آج 1446 ہجری میں خاتم الرسلؐ کی سب سے زیادہ ضرورت، آپؐ کی بشارت اور انداز تبلیغ کی ضرورت ہے۔ آپؐ کے پیغامات، معنوی رہنمائیوں کی جس کے ذریعے بنی نوع انسان کی تربیت فرمائیں۔ حبیبؐ خدا کا اپنی امت اور تمام انسانیت کے لیے جو پیغام ہے وہ علم، حلم، قوت، اخلاق و کرامت، رحمت و رافت، جہاد و عزت اور صبر و استقامت کا پیغام ہے۔ آپؐ کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں مکتب بشیرؐ کی شاگردی پر فخر کرنی چاہیے اور "اپنے جیسا و قرآن کافی ہے" کہنے پر فیصلہ و ضعیف حدیث کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ کہاں نوری اور کہاں خاکی، غلطیوں کا مجسمہ! آپؐ کے درس اخلاق، ادب و احترام، مساوات، تعلیم، وحدت و اتحاد کو سر مشق حیات قرار دینا چاہیے۔
کسی انسان میں وہ صلاحیت نہیں کہ حضور اکرم ﷺ والا صفات کے پہلوؤں کو بطور کامل بیان کر سکے اور آپؐ کی مکمل تصویر پیش کر سکے۔ حبیب خدا اور سرور انبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے سلسلہ میں جو کچھ پڑھ سکا، تحقیق کر سکا اور سمجھ سکا وہ آپؐ کے حقیقی، باطنی اور معنوی وجود کی صرف ایک ہلکی سی کوشش کی جھلک ہے۔ لیکن اتنی ہی معرفت ہم لوگوں کو شاہراہ کمال پر گامزن کر کے انسانی سعادت اور عظمت کی بلندیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ معرفت اسلامی اتحاد کے سائے میں عظیم مرکز پر جمع کر سکتی ہے۔
حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی تبلیغ کی چمک، خوشبو، اثر و تبدیلی چہار سو نمایاں ہے:
روشن کیا جہان صداقت کے نور سے
مہکایا باغ دنیا کو عصمت کے نور سے
چمکا دیے ضمیر ہدایت کے نور سے
شمع خرد جلائی رسالت کے نور سے
دنیا کو عزم و خلق کے جوہر دکھا دیے
صحرا میں پھول علم و عمل کے کھلا دیے