حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،املو،مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ/ شہیدان کربلا و اسیران کربلا کی یاد میں مثل سالہائے ماسبق اس سال بھی بتاریخ ۲۲؍صفر المظفر ۱۴۴۶ھ لغایت ۲۶؍صفر المظفر ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۸؍اگست ۲۰۲۴ءلغایت یکم ستمبر ۲۰۲۴ء بروز براز بدھ تا اتوار بوقت ۹؍ بجے شب مہدی آرمی فیڈریشن املو کے زیر اہتمام روضہ امام حسین ؑ املو بازار کے وسیع و عریض کشادہ و پرفضا صحن میں خمسہ مجالس کا چوتھا دور منعقدہوا جو گزشتہ روز نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔ان پانچ روزہ مجالس میںروزانہ مشہور و معروف خطیب و ذاکر اہل بیت ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری مقیم لکھنؤ نےاپنے خاص انداز خطابت میں ’’قرآن و ایمان‘‘ کے موضوع پر نہایت جامع ،مدلل،علمی ،تبلیغی،بصیرت افروز بیانات سے قلوب مومنین کو محظوظ و مستفید فرمایا۔
چوتھے روز کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ خطیب و عالم دین ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری نے اظہار خیال فرمایا کہ نجات اخروی کا دارومدار صادقین کی ولایت و معیت پر منحصر ہے ایسے سچے کہ جن کا دامن ماضی و حال اور مستقبل میں کذب و معصیت سے پاک ہو۔ایسے سچے جو کہہ دیں وہ ہوجائے۔ایسے سچے افراد جن کو پیغمبر اسلام نے کبھی اپنے بستر پر سلا کے بتایا،کبھی میدان غدیر میں سوالاکھ حاجیوں کے مجمع میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے بتایا، کبھی میدان مباہلہ میں لے جاکر بتایا۔ایسے سچے جو وعدے کے پکے ہوتے ہیں ۔آخر میں مولانا نے راہ شام میں امام حسین علیہ السلام کی آزاد کردہ کنیز شیریں جو اصل میں جناب شہر بانو مادر امام سجاد ؑ کی کنیز تھیں کا غمناک واقعہ بیان کیا جس کو سن کو سامعین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
پانچویں روز کی ا آخری و لوداعی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دنیا میں روئے زمین پر امام حسین ؑ سے بڑا کوئی نجات دہندہ نہیں گزرا ہے۔جس دن امام حسینؑ کی ولادت ہوئی زندگی کے پہلے دن یعنی ۳؍شعبان المعظم ۴ھ کو مدینہ میں فطرس کو عذاب الٰہی سے نجات دلایا اور زندگی کے آخری ی دن یعنی روز عاشور۶۱ھ کو میدان کربلا میں حر ریاحی ،حر کے بیٹے،حر کے بھائی،حر کے غلام کو دنیا و آخرت کے عذاب سے نجات دلایا ۔حقیقت میں پیغمبر اسلام کی حدیث مبارکہ ہے ’’حسین ؑ سفینہ نجات اور چراغ ہدایت ہیں‘‘۔آخر میں اہل حرم کا قید یزید سے رہائی پاکر کربلا میں آنا اور وہاں سب سے پہلے زائر قبر حسین ؑ ،بزرگ ترین صحابی رسول جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے ملاقات کے غمناک احوال بیان کئے جسے سن کر مجمع بے تحاشہ گریہ کرنے لگا۔
مذکورہ خمسہ مجالس کے دوران روزانہ پروگرام کا آغاز سوز خوانی سے ہوا جن میں محمد حسین سوز خوان وہمنوا املو،کاظم حسین سوزخوان و ہمنوااملو ،محمد سوزخوان پورہ خضر مبارکپور وہمنواوغیرہ نے اپنے اپنے حسن انداز ،سوز و گداز اور رقت آمیز لہجے میں سوزخوانی کے ذریعہ مجالس کو رونق بخشی۔ اور انجمن حسینیہ ا ملو،انجمن جوانان حسینی املو،انجمن امامیہ املو مقامی ماتمی انجمنوں نے پردرد آواز و انداز میں نوحہ خوانی و سینہ زنی کی جس سے ماحول پر پوری طرح شہیدان کربلا کے غم و الم گھٹا چھائی رہی۔
اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ،مولانا محمد مہدی املوی قمی،مولانا محمد اعظم املوی قمی ماسٹر شجاعت ،ماسٹر قیصر رضا،ماسٹر قیصر جاوید،آل حسن مبارکپوری لائٹ والے،ظفر عباس ،محمد قاسم جوادی،ظفر احمد مبارکپوری ،شاداب مبارکپوری،شہاب مبارکپوری سمیت اتنی کثیر تعداد میں بلا امتیاز مذہب و مسلک لوگوں نے شرکت کی کہ رات کا وقت تھا اور روضہ امام حسین ؑ املو کا وسیع وعریض صحن مجمع سے بھرا ہواتھا اور اردگرد کی سڑکیں بھی لوگوںسے بھری ہوئی تھیں ۔