تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| 28 صفر المظفر سن 11 ہجری تاریخ آدم و عالم کا وہ پہلا غم انگیز دن ہے کہ جس دن نہ صرف اہل زمین نے غم منایا بلکہ اہل آسمان نے بھی نوحہ کیا۔
تاریخ کائنات کا یہ وہ پہلا دن ہے کہ جس دن نہ صرف مدینہ بلکہ تمام موجودات نے لباس عزا زیب تن کیا اور گریہ و زاری کی، انسان ہی نہیں بلکہ جنات بلکہ ملائکہ مقربین نے بھی گریہ کیا۔ اگر زمین و آسمان اس غم میں خون روئیں تو حق ہے کیونکہ یہ انبیاء و مرسلین کے قافلہ سالار کا ماتم ہے۔
جانے والی کوئی معمولی شخصیت نہ تھی بلکہ ایک جملے میں کہہ دیا جائے کہ خدا کے بعد اگر کوئی فضیلت، رتبہ عزت، کرامت، شرافت کا مالک ہے تو وہ ذات مصطفی ہے۔
یہ غم کوئی حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوا بلکہ 13 دن پہلے 15 صفر المظفر سن 11 ہجری کو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر شہادت پر جلوہ افروز ہوئے، بیماری میں اضافہ ہوا اور طولانی ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔
لیکن جی چاہتا ہے کہ پیغمبر پر ماتم سے پہلے دنیا کی ستم ظریفی اور احسان فراموشی پر ماتم کر لیا جائے کہ جس پیغمبر کے سبب عربوں کو عزت ملی، ان کو وقار ملا، وہ دنیا میں ایک باعزت قوم کے طور پر پہچانے گئے، بے دین تھے دیندار ہوئے، بے ایمان تھے ایماندار ہوئے، فقیر تھے غنی ہوئے۔ لیکن افسوس جس عظیم الشان اور بلند شخصیت کے سبب ان کو یہ عزت و کرامت و رتبہ نصیب ہوا جب اسی ذات نے بستر شہادت سے قلم اور دوات کا مطالبہ کیا تو اطاعت و فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی اور توہین ہوئی اور ایسی توہین جو انکار رسالت و نبوت کا عکاس تھی۔ کہنے والے نے تو کہہ دیا "ان الرجل لیہجر" نقل کفر کفر نہ باشد یعنی العیاذ باللہ یہ شخص اپنے ہوش میں نہیں ہے، معاذ اللہ اس شخص کا ذہن کام نہیں کر رہا۔ یہ رجل، یہ آدمی کون ہے؟ یہ وہی شخصیت ہے جس کے لئے قران کریم میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرما رہا ہے: "وما محمد الا رسول" یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں ہے سوائے رسول کے۔ اللہ نے حکم دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو۔ لیکن یہاں پر کہنے والے نے "ان الرجل" کہہ کر انکار رسالت کیا, انکار نبوت کیا یعنی صلح حدیبیہ میں جو شک ہوا تھا اس شک کو یقین کا جامہ پہنا دیا۔
باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں الله تبارک و تعالی نے حکم دیا: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ" (ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔ سورہ حجرات، آیت 2) لیکن اس کے باوجود جب آپ بستر شہادت پر تھے نام نہاد امتیوں نے اتنا شور مچایا کہ رحمۃ للعالمین کی جبین رحمت پر آثار غیض و غضب نمایاں ہوئے اور فرمایا: "قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ" میرے پاس سے چلے جاؤ، میرے سامنے اختلافات کرنا (جھگڑنا) مناسب نہیں ہے۔
نافرمانوں اور بے حسوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ جب آپ نے حکم دیا کہ اسامہ کے لشکر میں شریک ہو کر راہ خدا میں جہاد کرو تب بھی کوئی نہ گیا۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "خدا کی لعنت ہو جو اسامہ کے لشکر میں نہ جائے" پھر بھی کوئی نہ گیا۔
اسی عالم میں اللہ کا نبی انتہائے مظلومیت کے ساتھ اس دنیا سے چلا گیا کہ جہاں دشمنوں کی دشمنیاں تھیں وہیں نام نہاد کلمہ گوئیوں کی نافرمانیوں کا داغ بھی سینے پر موجود تھا۔
آخر 28 صفر المظفر سن 11 ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اس دنیا سے رحلت فرمائی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دیگر مخلوقات و موجودات کی طرح مسلمان غم میں ڈوب جاتا لیکن افسوس لوگ دنیا میں مصروف ہو گئے۔
اهل دنیا کار دنیا ساختند
مصطفی را بی کفن انداختند
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے آپ کے غسل و کفن و حنوط اور نماز جنازہ ادا کی۔ بعدہ گروہ در گروہ چاہنے والے مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی۔ نیز آسمان کے ملائکہ نے بھی حاضر ہو کر نماز جنازہ پڑھی۔
28 صفر المظفر سن 11 ہجری صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم شہادت نہیں بلکہ آل رسول علیہم السلام کے غم کا آغاز ہے، اب تک جو کینے اور دشمنیاں دلوں میں تھی اب وہ ظاہر ہوں گی، زبانوں پر آ جائیں گی، نتیجہ میں جن اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کی اطاعت کا حضور نے حکم دیا تھا ان سے دشمنی کی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مدینہ منورہ میں اپنے بابا کے نام نہاد امتیوں کے درمیان احساس غربت کرے گی، فریاد کرے گی لیکن کوئی سننے والا نہ ہوگا، بلکہ نوبت تو یہ آ جائے گی کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ سے خود اہل مدینہ کو تکلیف اور اپنے امور میں خلل محسوس ہوگا۔ یہاں تک 75 یا 95 دن بعد یادگار پیغمبر بھی اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے۔
السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا خَاتَمَ النَّبِیِّینَ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِینَ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا قَائِماً بِالْقِسْطِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا فَاتِحَ الْخَیْرِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مَعْدِنَ الْوَحْیِ وَ التَّنْزِیلِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مُبَلِّغاً عَنِ اللَّهِ