۱۵ مهر ۱۴۰۳ |۲ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 6, 2024
News ID: 402423
19 ستمبر 2024 - 11:14
دیوارنگاره «علی حب النبی(ص)»

حوزہ/ہمارے ملک میں ہر سو عدم برداشت کی فضاء ہے، ایک طرف کچھ نفرت کے پجاری مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں غلط طرز اصلاح اور درشتی و سختی کی بنا پر ہم روز بروز دوستوں اور اپنوں کا حلقہ از خود تنگ کئے جا رہے ہیں۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| ہمارے ملک میں ہر سو عدم برداشت کی فضاء ہے، ایک طرف کچھ نفرت کے پجاری مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں غلط طرز اصلاح اور درشتی و سختی کی بنا پر ہم روز بروز دوستوں اور اپنوں کا حلقہ از خود تنگ کئے جا رہے ہیں۔

اگر ہم سیرت پیغمبر (ص) پر نظر ڈالیں تو ہمیں ملے گا آپ کس قدر نرم مزاج کے حامل تھے اور کس طرح لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے کس طرح بڑی سے بڑی بیماری کا علاج بڑے ہی خوبصورت انداز میں فرماتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا تھا۔

ہم ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم خوئی اور آپکی روش اصلاح کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں جن سے واضح ہوگا کہ پیغمبر ص کا انداز کیا تھا اور ہمارا کیا ہے اور ہمیں کس طرح حضور ص کے تعلیمات کو اپنے وجود میں اتار کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔

ابو جہل کا اعتراف:

ابو جہل کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ شرک و کفر کی علامت ہے کتنا برا انسان ہے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ، لیکن تاریخ کہتی ہے ایک دن یہی ابو جہل جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے پاس آتے ہوئے دیکھتا ہے تو خود کو روک نہیں پاتا ہے، یوں تو جب بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملا اس نے ہمیشہ اہانت کی ہمیشہ پیغمبر (ص) کی توہین کی نازیبا کلمات جاری کئے بے ادبی کی لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ تھا ادھر سے حضور (ص) بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ تھے آمنا سامنا ہو گیا جیسے ہی پیغمبر ص کا سامنا ہوا نہ تو زبان سے کوئی نازیبا حرف نکلا نہ توہین آمیز کوئی سلوک کیا بلکہ بے ساختہ پیغمبر ص کے سامنے مصافحہ کا ہاتھ بڑھا دیا، جیسے ہی لوگوں نے یہ دیکھا ہر جگہ یہ بات آگ ہی طرح پھیل گئی کہ ابو جہل بھی پیغمبر (ص) کا گرویدہ ہو گیا، ابو جہل کے ساتھیوں نے کہا لو ہمارا تو مضبوط ستون ہی ڈھیر ہو گیا ابو جہل یقینا کفار و مشرکین کے لئے ایک مضبوط پلر کی حیثیت رکھتا تھا ، ادھر ممکن ہے بعض نادان دوستوں نے سوچا ہو کہ ابوجہل کے آنے سے اب انہیں بڑی طاقت مل جائے گی، اب تاریخ کہتی ہے کسی نے ابو جہل سے کہا قیل لہ لماذا ؟ کیوں تم نے ایسا کیا؟ کیوں اس طرح رسول اللہ ص سے پر تباک انداز میں ملے تو اس نے جواب دیا واللہ انی اعلم انہ لصادق، میں جانتا ہوں کہ یہ سچے ہیں، یعنی میں نے جو احترام کیا ہے اسکا تعلق صداقت رسول (ص) سے ہے میرے ایمان لانے سے نہیں ہے، پھر جواب دیتا ہے عبد مناف کے ساتھ تو ہماری کبھی نہیں بنی، انکا معاملہ الگ ہے ہمارا الگ ہے ہم کبھی عبد مناف کے پیرو نہیں ہو سکتے، اب یہ تعصب دیکھیں کہ حق کو جانتے ہوئے حق کے راستے کی طرف نہیں آ رہا ہے ابو جہل نے ان تمام لوگوں کو جواب دے دیا جو اب تک پریشان تھے کہ ابو جہل کہاں چلا گیا اپنے عمل سے بتایا کہ میں پیغمبر ص کی صداقت کا اعتراف ضرور کرتا ہوں لیکن اس صداقت کی بنیاد پر دین پیغمبر (ص) پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوں، یہ بہت عجیب و سنگین معاملہ ہے کہ انسان کسی کی سچائی کا معترف ہو لیکن اس کے دل میں اتنا تعصب ہو اس کے وجود کو جہالت نے اس قدر گھیرا ہو اہو کہ وہ سچائی کو دیکھ کر بھی اسکا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، کرادار پیغمبر ص یہ تھا انداز پیغمبر ص یہ تھا کہ دشمن بھی آپکی صداقت و طہارت کا کلمہ پڑھتے تھے۔ کاش ہم بھی بجائے اس کے کہ بڑی بڑی باتیں بنائیں اپنے عمل کو ایسا بنا لیں کہ دشمن بھی ہماری خوبیوں کا معترف ہو جائے، یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنے کردار کو سجائیں ۔

معاشرے میں خراب لوگ بھی ہیں اور خرابیاں بھی ہیں لیکن تمام خرابیوں کو چیخ پکار کے ذریعہ نہیں سدھارا جا سکتا ہے کچھ جگہوں پر اگر واقعی برائی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں آگے بڑھ کے صبر و تحمل دکھانے کی ضرورت ہے اور نزاکت کے ساتھ خوبصورتی کے ساتھ کسی بگڑے ہوئے کو صحیح راستے کی طرف لانے کی ضرورت ہے اس کے لئے سیرت پیغمبر ص پر توجہ ضروری ہے ۔

پیغمبر (ص) اور ایک تانکا جھانکی کرنے والا جوان:

ایک جوان کو پیغمبر ص نے دیکھا خواتین کو غلط نظروں سے دیکھ رہا ہے، کوئی ایسی جگہ تھی جہاں خواتین کا کوئی پروگرام تھا خیمے لگے تھے خواتین کی آمد و رفت جاری تھی یہ اپنا کام کر رہا تھا ، اسی اثنا میں پیغمبر ص کا گزر وہاں سے ہوا آپ نے جوان کو دیکھا ؟ پوچھا کیا کر رہے ہو صاحبزادے؟ کہا یا رسول اللہ میرا اونٹ گم ہو گیا ہے اسے ہی تلاش کر رہا ہوں؟ آپ نے کہا کچھ نہیں کہا خاموشی کے ساتھ چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ پھر وہیں کھڑا ہے؟ آپ نے کہا ابھی تک اونٹ ملا نہیں تمہارا؟ اس انداز سے یہ بات کہی کہ جوان شرمندہ ہو گیا اور اپنی راہ لی ۔

اب آپ دیکھیں ایک انداز یہ تھا کہ پیغمبر ص اسکا شانہ پکڑ کر کہتے کہ یہاں کون سا اونٹ ہے؟ اگر اونٹ ہی گم ہوا ہے تو اس خیمہ میں تو گیا نہیں جس میں تم تانکا جھانکی کر رہے ہو جاو کسی اور جگہ تلاش کرو یہاں کوئی اونٹ نہیں ہے؟ یا ہمارے یہاں کا بزرگ ہوتا تو بے ساختہ کہتا ہم نے یوں ہی سر کے بال سفید نہیں کئے ہیں برخوردار جائیے اپنے گھر جائیے اور والدہ محترمہ سے کہیے کہ آپ کے لئے شریکہ حیات کا انتخاب کریں آپ کو اونٹ سے زیادہ صالح زوجہ کی ضرورت ہے جو آپ کو اونٹ ڈھونڈنے کی زحمت سے بچائے گی، یہ بھی وہ طرز ہے جو نسبتا شایستہ ہے غیر شایستہ کی تو بات نہیں۔ ممکن ہے کوئی اس جوان کو دکھا دیتا، کوئی چیخ پکار کرتا کوئی اس کی آبرو ریزی کر دیتا کہ یہاں پر لوگوں کی ماؤں بہنوں پر غلط نظر ڈال رہا ہے، لیکن یہ انداز پیغمبر ص کا ہے کہ پیغمبر ص نے معنی خیز انداز میں بس اتنا پوچھا ’’جوان اب تک تو اونٹ مل جانا چاہیے، ابھی تک تمہیں نہ مل سکا‘‘ اس معنی خیز جملے میں اتنی شایستگی تھی کہ جوان شرمندہ ہوا اور اپنی گردن جھکا کر چلا گیا ۔

اس طرح کے نہ جانے کتنے ہی ایسے نمونے ہیں جو ہمیں مل جائیں گے سیرت پیغمبر ص میں، خود حضور ص کا انداز تبلیغ ایک مستقل موضوع ہے جس پر کام کی ضرورت ہے۔

بد زبان انسان کے ساتھ پیغمبر (ص) کا برتاؤ:

تاریخ کہتی ہے ایک شخص ہے جس کا نام عیینہ ہے بہت ہی بد زبان انسان ہے جو منھ میں آئے بک دیتا ہے نہ چھوٹا دیکھتا ہے نہ بڑا، زبان چلانے سے مطلب اس کی زبان کی کمان سے نکلے تیروں سے کوئی محفوظ نہیں، جب بھی کہیں جاتا ہے جو بے چارے پہلے سے بیٹھے ہوئے اٹھ کر چلے جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی جملہ بول دے اور ان کی بے عزتی ہو جائے، جب بھی بات کرتا ہے گالی سے شروع کرتا ہے ایک جملہ بھی بولتا ہے تو اس میں کئی کئی گالیاں ہوتی ہیں مختصر یہ کہ بہت ہی دریدہ دہن بد تمیز انسان ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرما ہیں کہ خبر ملی یا رسول اللہ عیینہ آ رہا ہے آپ نے کریم پروردگار کی بارگاہ میں ہاتھوں کو اٹھا دیا مالک ! مجھے اس کی زبان کے شر سے محفوظ رکھ۔ پھر آپ نے فرمایا : سب سے برا انسان وہ ہے جس کی زبان سے لوگ محفوظ نہ رہیں عیینہ آیا حضور ص کی خدمت میں بیٹھا کچھ دیر باتیں کرتا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا پیغمبر ص نے بھی اسکا استقبال کیا اسے جگہ دی بٹھایا متانت کے ساتھ گفتگو کی جیسے ہی یہ گیا رسول ص کے صحابیوں نے پیغمبر ص کو گھیر لیا یا رسول اللہ ص یہ اتنا دریدہ دہن بد تمیز آدمی ہے آپ نے اس کی اتنی عزت کی اتنی شایستہ لہجے میں گفتگو کی؟ آپ تو اس کی آمد کی خبر سن کر کہہ رہے تھے اللہ اس کے شر سے بچائے؟ اسکے بعد بھی اسکا اتنا احترام ؟

آپ نے اس مفہوم کا جملہ فرمایا: اس کے ساتھ اچھا انداز اس لئے تھا کہ اسے احساس ہو گفتگو کیسے کی جاتی ہے تاکہ یہ بد زبانی نہ کرے، پھر آپ نے فرمایا: سب سے برا انسان وہ ہے لوگ جسکا احترام اس کے ڈر کی وجہ سے کریں ۔

یہ ہے انداز پیغمبر ص ہمارے یہاں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ، اگر شریف انسان ہے تو اپنے لئے کوئی بہانا ڈھونڈ لیتا ہے مثلا کوئی بدمعاش کوئی غنڈہ کوئی داد ا گیر کوئی بھائی قسم کا آدمی اگر کسی شریف انسان کے گھر کا رخ کرتا ہے تو وہ فورا کسی بہانے سے گھر سے ہی نکل جاتا ہے کہ اس کا سامنا ہی نہ کرے عام طور پر شرفاء کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ایسی جگہ سے ہی خود کو دور کر لو جہاں تمہارے ساتھ جسارت ہو کوئی تمہاری توہین کرے ہمارے یہاں یہ جملہ مشہور ہے، ہم بدتمیزوں کے منہ نہیں لگتے اور نہ انہیں لگاتے ہیں، ہم بدزبانوں کے نہ منہ لگتے ہیں نہ انہیں لگاتے ہیں، بہت بڑا جگر چاہیے ایک بد تمیز و بد زبان انسان کا سامنا کرنے کے لئے اور اس سے بڑا جگر چاہیے کمال شایستگی و متانت کے ساتھ اس سے گفتگو کر نے کے لئے، حضور صلی علیہ و آلہ وسلم کا ایہ انداز ہمارے سامنے ایک نہج رکھتا ہے ایک روش رکھتا ہے کہ تم کس طرح اپنے اخلاق و کرادر کے بل پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہو۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .