تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ایک شہر میں دو عالم رہتے تھے ۔ جو آپس میں بہت اختلاف رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی صلاحیت و قابلیت کا خوب مذاق اڑاتے ، ان میں ایک دہریہ تھا اور دوسرا خدا پرست۔
ایک دن دونوں بازار میں ملے اور اپنے اپنے معتقدوں کی موجودگی میں خدا کےوجود اور عدم وجود پر بحث کرنے لگے گھنٹوں مناظرہ کرنے کے بعد وہ ایکدوسرے سے جدا ہوئے ۔اسی شام دہریہ مسجد میں گیا اور اپنے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے خداسے التجا کی۔
دوسرے عالم نے فورا ًً اپنی کتابیں جلا دیں ۔کیونکہ وہ اب دہریہ بن چکا تھا ۔"خلیل جبران" کی یہ مختصر سی کہانی یوں تو یہیں پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے لیکن اس میں مزید آگے بڑھنے کی گنجائش ہے اور وہ یوں کہ عالم تو دہریہ بن گیا اور دہریہ عالم بن گیا لیکن دونوں کے معتقدین نہ دہریہ کو عالم ماننے پر تیار ہوئے اور نہ عالم کے دہریہ بن جانے پر، انکی آپسی گتھم گتھی اپنے اپنے مرشدوں کو صحیح ثابت کرنے پر ہوتی رہی عالم دہریہ بن کر مر گیا دہریہ عالم بن کر گزر گیا لیکن انکے ماننے والوں کی نسلیں اسی خط پر گامزن رہی جس پر کبھی ان دونوں نے انکی رہنمائی کی تھی۔
••••
ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو محض ایک ایسی داستان ہے جسکا واقعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر ہم اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسےبہت سے کردار ملیں گے جہاں کسی انسان کی اپنی سوچ کچھ اور ہے لیکن ہمنواوں کی بنیاد پر وہ سوچ کسی اور ڈگر پر رہا ہے اور اپنی واقعی سوچ کوبیان کرنے سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اسکے حوالی موالی اس سے الگ ہو جائیں گےاور جو ہاتھ میں ہے وہ بھی جائے گا سو جو ہاتھ آیا ہوا ہے وہ کسی بھی وجہ سے ہو فی الحال تو اسے کیش کرانا ہی بہتر ہے چاہے اسکا ذاتی نظریہ کچھ بھی ہو نظریہ سے اسکا پیٹ تھوڑی بھرے گا اسے تو دیکھنا ہے سکہ کونسا چل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھوک کی چکی نظریہ کو آٹے کے ساتھ پیس دیتی ہے اور جو بے چارہ نظریہ کے ساتھ جیتا ہے بھوکا مرتا ہے اس کے پاس اسکے ضمیر کی آواز اسکی مستقل فکر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اسی بنا پر اکثر بھلا انسان بھی نظریہ بھول جاتا ہے یوں نظریے رویوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ضمیر کو تھپک کر سلا دیا جاتا ہے اور اگر کبھی اسکا ضمیر اسے جگا بھی دے اور غلط کو غلط کہنا بھی چاہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے گرد گرد کے افراد اسے "اظہار حق" نہیں کرنے دیتے کہ "اظہار حق" انکی موت سے عبارت ہوتا ہے انہیں پتہ ہے کہ یہ صاحب منصب ہے یہ صاحب اختیار ہے یہ صاحب اقتدار ہے اگر اس نے حق کی بنیاد پر مثلا فیصلہ کر لیا کہ یہ منصب اس کے لائق نہیں یہ عہدہ اسکے لئے نہیں یہ غلط ہے یہ مقام اسکا نہیں وہ غلط روش اپنا کر غلط طرز اختیار کر کے یہاں تک پہنچا ہے تو یہ وہ منزل ہوتی ہے کہ اس کے ارد گرد منڈلانے والے اسے یقین دلاتے ہیں کہ صاحب آپ بالکل صحیح ہیں ، آپ سے بہتر کون ہوگا ؟ آپ سے زیادہ لائق کون ہوگا ؟ اسکے چیلے چپاٹے یہ کام اس لئَے کر تے ہیں کہ انکا اپنا فائدہ ہوتا ہے انہیں معلوم ہوتا ہے اسکا مقام گیا تو وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے، اسکا اختیار ختم ہوا تو انکا کوئی پوچھنے والانہیں ہوگا چونکہ انکے پاس مکھن مسکے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں اس لئے یہ لوگ بے صلاحیت انسان کے اندر صلاحتیں تراشتے تراشتے اپنے ضمیر کو لہو لہان کرتے رہتے ہیں انہیں پتہ ہوتا ہے اسکی کرسی گئی تو وہ زمین پر بیٹھنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے، ایسے میں کم ہوتے ہیں جو ان تمام مذکورہ رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے محض حق کی بنیاد پر حق کے ساتھ ہو جائیں ورنہ اکثر و بیشتر اپنے غلط افکار وغلط طرز عمل کے دلدل میں پھنستے ہی چلے جاتے ہیں ، اور جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلط ڈگر پر چل دینے کے بعد ایک غلط نظریہ دے دینے کے بعد صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے توبہ اور وہ ہے حقیقت کی طرف بازگشت اور اس توبہ و بازگشت میں وہ فریب و جھوٹ کے بل پر بنائے محل کو مسمار ہوتا دیکھتے ہیں تو اب کوشش یہ کرتے ہیں کہ فی الحال جو کچھ ہے اسے بچاو آگے کا دیکھا جائے یہ وہ خطرناک منزل ہے جہاں انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور جتا ہاتھ پیر مارتا ہے خود فریبی کے پاتال میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا کب اسکا حقیقی وجود جھوٹی تعریفوں کے سمندر میں غرق ہو گیا بظاہر اسے سب کچھ صحیح دکھ رہا ہوتا ہے وہ کہیں کہیں اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر لیتا ہے کہ میں کونسا غلط نظریے کو مانتا ہوں؟ میں کہاں غلط فکر کو اپنائے ہوں؟ فی الحال جب تک کام چل رہا ہے چلتا رہے تو کیا برائی ہے کم سے کم آگے پیچھے کچھ جی حضوری کرنے والے تو لگےہیں یہی بڑا سرمایہ ہے ۔ جبکہ اس طرح کچھ دن تو ایسے لوگوں کی چاندی رہتی ہے لیکن انجام کار بہت برا ہوتا ہے ایسا انسان نہ اِدھر کار رہتا ہے نہ نہ اُدھر کا ہم نے کیا آپ نے بھی یقینا دیکھا ہوگا کہ انسان اپنے پرستاروں اور معتقدین کے جم گھٹ میںاپنے نظریات کچھ اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ اسے خود بھی پتہ نہیں ہوتاکہ جو کہہ رہا ہے وہ کہاں سے کہہ رہا ہے اور کیا جو کہہ رہا ہے واقعا دلسے اسے مانتا اور تسلیم کرتا ہے ؟ یا پھر معتقدین اور ا پنے قدردانوں کو جتانے اور دکھانے کے لئے اپنی جس بے دَم بات میں دّم پھونک رہا ہےانجام کار اس کا کیا بنے گا جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس بات میں اس نے زور لگا کر دم پھونکا تھا کہ اپنے ارد گرد کے چند لوگوں کو اپنا بنائے رہے وہ خود اسکی ذات کے بے دّم ہو جانے کے بعد بھی بات کو دّم دار بنائےرہتے ہیں جبکہ یہ بے دّم ہوا فرشتوں کے سامنے لا جواب ہوتا ہے،اب مصیبت یہ ہے کہ اپنی غلط بات کو درست کرنے کے لئے اس کے پاس اتنا موقع بھی نہیں ہوتا کہ دنیا میں واپس جا کر اپنے غلط نظریہ کو غلط کہہ سکے اور چار دن کی رونقوں کے حصول کی خاطر جن لوگوں کو بہکایا آیا ہے انہیں بتا سکے کہ ایسا کچھ نہیں ہے جس پر تم میرے مرنے کے بعد بھی چل رہے ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں ، اس میں کوئی سچائی نہیں سب غلط ہے سب جھوٹ ہے سب فریب ہے، میں نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ عقلی بنیادوں پر غلط تھا جو بات میں نےکی تھی وہ بے منطق و لا حاصل تھی اور میں محض اس لئے اس غلط بات اور نظریہ میں صور پھونکتا رہا کہ تم لوگوں کو وہ غلط بات پسند تھی لیکن اب آخرت کی زندگی ہے دائمی زندگی ہے اس میں حساب کتاب سخت ہے تم اس غلط بات کو چھوڑ دو غلط نظریہ سے دست بردار ہو جاو کہ اس کی وجہ سے روز گرز آہنیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے روز شدید عذاب میں مبتلا ہوں کہ وقت پر حق نہ کہہ سکا اور نا حق بات کا ایسا حق نما بت بنا آیا کہ سامری بھی میری حالت دیکھ کر قہقہہ لگا رہا اور اسکا ہر قہقہ دہکتے ہوئے گرز آہنی کے ساتھ میری روح کو بھی جلا رہا ہے ...
آپ کا تبصرہ