جمعہ 16 مئی 2025 - 17:25
شادی میں صرف "مدد" کی نیت سے قدم اٹھانا کیوں غلط ہے؟

حوزہ/ بہت سے نوجوان آج کل ایسے رشتوں میں قدم رکھتے ہیں جن کی بنیاد "مدد کرنے" یا "نجات دینے" کی نیت پر ہوتی ہے۔ ایک ایسا جذبہ جو بظاہر ہمدردی اور ایثار کا مظہر لگتا ہے، درحقیقت ایک خطرناک فریب بھی ہو سکتا ہے، جو بعد میں زندگی بھر کی ناہمواری اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بہت سے نوجوان آج کل ایسے رشتوں میں قدم رکھتے ہیں جن کی بنیاد "مدد کرنے" یا "نجات دینے" کی نیت پر ہوتی ہے۔ ایک ایسا جذبہ جو بظاہر ہمدردی اور ایثار کا مظہر لگتا ہے، درحقیقت ایک خطرناک فریب بھی ہو سکتا ہے، جو بعد میں زندگی بھر کی ناہمواری اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا محبت ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے کسی کو نشے، نفسیاتی مسائل یا زندگی کی ناکامیوں سے بچایا جا سکتا ہے؟ یا محبت کا اصل مقصد ایک ایسا رشتہ قائم کرنا ہے جو باہمی تفاهم، شناخت اور احترام پر مبنی ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات نوجوان کسی لڑکے یا لڑکی سے صرف اس لیے رشتہ جوڑ لیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں: "میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ نشہ چھوڑ دے"، یا "میں اپنی محبت سے اس کے زخم بھر سکتا ہوں۔"

یہ سوچ دراصل ایک طرح کی "نجات دہندگی" ہے، یعنی انسان خود کو کسی مشن پر سمجھتا ہے۔ لڑکیاں اکثر ایسے خیالات کی گرفت میں آ جاتی ہیں، لیکن مرد بھی اس میدان میں کم نہیں۔ ایسے افراد خود کو خدا کی طرف سے بھیجی گئی کوئی خاص طاقت تصور کرتے ہیں جو کسی اور کی زندگی کو سنوارنے، اس کے مسائل حل کرنے اور اسے نجات دلانے آئے ہیں۔

یہ جذبہ اگرچہ بظاہر بلند نظر آتا ہے، لیکن دراصل یہ ایک غیرمتوازن تعلق کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس میں فریقین کے درمیان محبت یا ذہنی ہم آہنگی نہیں بلکہ ایک فریق کی کمزوری اور دوسرے کی برتری کا احساس ہوتا ہے۔ کمزور فریق چونکہ زندگی کی ماریں کھا چکا ہوتا ہے، اس لیے جب کوئی اس پر محبت نچھاور کرتا ہے تو وہ فوراً متاثر ہو جاتا ہے، جبکہ دوسرا فریق خود کو کسی عظیم مشن پر سمجھ کر خوش ہوتا ہے۔

ایسے نجات دہندہ و بچاؤ کی کوشش جب ایک بار تعلق میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ان کے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اگر رشتہ ختم کریں گے تو جیسے کسی مریض کو آدھے راستے میں چھوڑ دیں گے۔ یہ احساسِ گناہ انہیں رشتہ توڑنے سے روکتا ہے، چاہے وہ رشتہ ان کے لیے زہر ہی کیوں نہ بن چکا ہو۔

لہٰذا اگر آپ نے کسی ایسے فرد سے رشتہ کرنے کا سوچا ہے جو بے روزگار ہے، سماجی طور پر الگ تھلگ ہے، منشیات کا عادی ہے یا ذہنی مسائل سے دوچار ہے، اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ شادی کے ذریعے اسے بچا سکتے ہیں، تو رک جائیں! کیونکہ اس صورت میں آپ شوہر یا بیوی نہیں بلکہ والد، والدہ، مشیر یا معالج کا کردار ادا کرنے لگیں گے۔ اور جلد ہی آپ کو یہ احساس ہو گا کہ نہ آپ میں باہمی ذہنی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی آپ اس شخص سے حقیقی محبت کرتے ہیں۔ آپ کا رشتہ صرف ایک مشن تھا، محبت نہیں۔

یاد رکھیں، شادی محبت، تفاهم، اور شعور کا رشتہ ہے، نہ کہ کسی کو نجات دینے کا مشن۔ یہاں "قہرمان بازی" (ہیرو بننے) کی کوئی جگہ نہیں۔ شادی کا میدان ایک "ریسکیو آپریشن" نہیں، بلکہ دو انسانوں کا باہمی انتخاب اور زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کا ساتھ ہوتا ہے۔

سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے: آپ شریکِ حیات چن رہے ہیں یا کسی کو نجات دینے کے مشن پر نکلے ہیں؟

حوالہ: کتاب انتخابِ سمی، صفحہ ۴۳

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha