تحریر: طلال علی مہدوی
حوزہ نیوز ایجنسی| انسانی زندگی ایک اجتماعی امر ہے اور انسان کو ہر مرحلے پر کسی نہ کسی دوسرے شخص کی ضرورت ہوتی اور اس ضرورت کو پُر کرنے کیلئے سب سے بہترین ذریعہ کنبہ اور خاندان ہے اور اس کنبے اور خاندان کی تشکیل کیلئے اسلام حتیٰ کہ ہر مذہب کے پیشِ نظر بہترین طریقہ رشتہ ازدواج، یعنی شادی ہے۔
رشتہ ازدواج کا معنی و مفہوم ہے کہ ایک مرد اور عورت کا نکاح کے عمل کے ذریعے ایک ایسے رشتے سے منسلک ہوجانا جس میں وہ جسمانی اور روحانی طور پر ایک دوسرے کی حیات میں شریک ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایسے جائز رشتے میں بندھ جاتے ہیں جس کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی ایک ہی چھت تلے بتا سکیں۔ اور ایک دوسرے کے نا محرم سے محرم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
قرآن و روایات میں رشتہ ازدواج کی بے پناہ اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور گاہے بگاہے خوب تاکید کی گئی ہے۔
جیساکہ فرمان رسالت مآب ہے:نکاح میری سنت ہے، جو بھی اس سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔
یعنی نکاح کا عمل ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل کی ضمانت ہے کہ اس کے بعد انسان بہت سے گناہان کبیرہ سے محفوط رہتا ہے کہ جن کی جانب انسان کا نفس اُسے مائل کرتا ہے۔
امام صادق علیہ السّلام کا فرمان ذیشان ہے: شادی شدہ فرد کی دو رکعت نماز غیر شادی شدہ افراد کی 70 رکعت سے افضل ہے۔
یعنی یہ عمل خدا کے نزدیک اس قدر محبوب ہے کہ خدا اس عمل کو انجام دینے والے شخص کو ہر قسم کے انعامات سے نوازتا ہے اور اُس کے اعمال کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔
ایک اور مقام پر پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ کوئی بھی شخص اگر ابتدائے جوانی میں شادی کرلے تو شیطان نالہ کناں ہوتا ہے۔
یعنی یہ عمل ہر اُس وسوسے اور خیال سے محفوظ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعے شیطان ایک جوان کو خدا سے منحرف کردیتا ہے۔
اس کے علاوہ تاریخ میں ایک واقع کچھ اسطرح یہ درج ہے کہ قوم بنی اسرائیل میں ایک بہت متقی و پرہیز گار شخص ہوا کرتا تھا جس نے اپنی زندگی خدا کی عبادت میں صرف کردی مگر وہ غیر شادی شدہ رہا اور اس ہی عالم میں اسکا انتقال ہوگیا۔ اُسکی موت کے بعد اس شخص کے ایک عزیز نے اُسے خواب میں دیکھا۔ اُس دوست نے اُس متقی سے پوچھا: "بتاؤ برزخ و موت کے معاملات کیسے رہے؟
اُس متقی نے جواب دیا: خدا نے مجھے بہت سے انعامات و اکرام اور عظیم ترین مقام سے نوازا مگر ایک مقام کی حسرت رہ گئی جس سے جدا نے مجھے محروم رکھا ہے۔
پوچھا: وہ کونسا مقام ہے؟
جواب دیا: وہ، وہ مقام ہے جسے جدا نے صرف شادی شدہ پرہیزگاروں کیلئے مختص فرمایا ہے۔ "
لہٰذا متقی و پرہیزگار افراد بھی اگر غیر شادی شدہ ہیں تو وہ خدا کی نظر میں معتبر تو ہیں مگر ایک شادی شدہ متقی کی اہمیت اس قدر ہے کہ جنتی بھی ان کے مقام کو دیکھ کر حسرت اور رشک کریں گے۔
اب قرآن کی جانب نگاہ کریں تو سورۂ مبارکۂ روم آیت 21 میں ارشاد ہوا کہ خدا نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے سے آرامش اور سکون حاصل کرو۔
یعنی کہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ہر انسان کیلئے امر الہی ہے اور اس کے ہی ذریعے خدا نے انسان کی زندگی میں ذہنی، روحانی و جسمانی سکون قرار دیتا ہے اور جس نے اس عمل سے انحراف کیا گویا اُس نے خدا کے امر سے انحراف کیا یعنی کہ اُس نے خدا سے انحراف کیا۔
اور اسی طرح سورۂ مبارکۂ روم میں ہی ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے کہ وہ تمہیں فقر کا وعدہ دے کر خوفزدہ کرتا ہے اور برائیوں کی دعوت دیتا ہے مگر اللہ مغفرت، فضل اور احسان کا وعدہ کرتا ہے اور وہ تمہارے حال سے واقف ہے۔
یعنی جو افراد اس خوف سے شادی سے فرار اختیار کرتے ہیں کہ کنبے اور اہل عیال کے اخراجات انہیں تنگ دستی میں دھکیل دیں گے ایسے افراد کو خدا ترغیب دلا رہا ہے کہ یہ امر الٰہی ہے اور تمہارے رزق اور تمہارے اہل و عیال کے رزق کا ضامن خدا ہے لہذا تم بس صحیح نیت کے ساتھ اُس کا حکم انجام دو اور کوشش کرو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔
علاوہ ازیں شادی کو مختلف ثقافتی اور سماجی تناظر میں دیکھا جائے سائنسدانوں، فلسفیوں، دانشوروں اور نفسیاتی ماہرین نے اس موضوع پر گہرائی سے تحقیق کی ہے اور اس کی اہمیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔
سائنسی نظریہ:
تطوری فائدہ: سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شادی ایک تطوری فائدہ ہے جس نے انسانوں کو اپنی نسلوں کو آگے بڑھانے اور سماجی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کی ہے۔
صحت اور خوشحالی: تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ شادی شدہ افراد عام طور پر غیر شادی شدہ افراد کے مقابلے میں صحت مند اور خوشحال ہوتے ہیں۔
سماجی حمایت: شادی ایک مضبوط سماجی نیٹ ورک فراہم کرتی ہے جو مشکل وقتوں میں حمایت اور سہارا کا کام کرتی ہے۔
فلسفیانہ نظریہ:
انسانی فطرت: فلسفیوں کا خیال ہے کہ شادی انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے جو محبت، تعلق اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔
اخلاقی ذمہ داری: شادی کو ایک اخلاقی ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے اور ذمہ داری لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
معاشرتی استحکام: شادی معاشرے کو استحکام بخشتی ہے اور اسے ایک مربوط اور منظم نظام بناتی ہے۔
دانشورانہ نظریہ:
سماجی تعمیر: دانشوروں کا خیال ہے کہ شادی ایک سماجی تعمیر ہے جس کی تعریف مختلف ثقافتوں اور سماجوں میں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔
نفسیاتی نظریہ:
امان اور اطمینان: نفسیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ شادی افراد کو امان اور اطمینان کا احساس فراہم کرتی ہے اور انہیں زندگی کا مقصد فراہم کرتی ہے۔
ذاتی ترقی: شادی افراد کو ذاتی ترقی اور خود شناسی کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
جذباتی وابستگی: شادی جذباتی وابستگی اور محبت کا ایک گہرا رشتہ قائم کرتی ہے۔
لہٰذا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شادی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو افراد اور معاشرے دونوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بس معاشرے میں نکاح اور رشتہ ازدواج کی ترغیب کیلئے نہ صرف والدین پر، بلکہ معاشرے کے ہر فرد پہ واجب و ملزوم ہے کہ وہ شادی کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سماج کو شادی کے فوائد و اہمیت کے متعلق آگاہ کریں۔
آپ کا تبصرہ