۲۷ مهر ۱۴۰۳ |۱۴ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 18, 2024
آغا سید عبد الحسین بڈگامی

حوزہ/ آج حزب اللہ لبنان نہ صرف شیعہ برادری کی سیاسی و سماجی قوت سمجھی جاتی ہے بلکہ یہ شیعہ سنی یکجہتی اور مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں، کے درمیان حسن سلوک کا ناقابلِ شکست قلعہ بھی تسلیم کی جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ دنوں کشمیر کے علاقے اشرف محلہ ڈل سرینگر میں واقع مسجد امام زین العابدین (ع) میں مقامی نوجوانوں کی جانب سے مجاہد، عالم ربانی، اور حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل، سید مقاومت، شہید سید حسن نصر اللہ کی یاد میں ایک مجلس عزاء منعقد کی گئی۔

مجلس کے خصوصی مہمان جموں و کشمیر کے معروف عالم دین، آغا سید عبد الحسین بڈگامی تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں موت، افضل موت، اور عالم کی موت کے موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے سورۂ ملک کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں اللہ کی برکتوں کا ذکر ہے، وہیں موت و حیات کو امتحان کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے۔ اللہ کی برکتیں ان لوگوں کو زیادہ حاصل ہوتی ہیں جو ان امتحانات میں کامیابی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ شہید سید حسن نصر اللہ نے اپنی زندگی میں موت و حیات کے امتحانات میں کامیابی کے ساتھ شرکت کی اور اپنے ملک کو ناقابلِ تسخیر بنانے، اور ہر شہری کی مذہبی و مسلکی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے استعماری طاقتوں کے خلاف اتحاد و یکجہتی قائم رکھنے کی عملی کوششوں سے دنیا کے سامنے ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔

آغا عبد الحسین نے ایران میں ولایتِ فقیہ اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد لبنانی شیعوں کے اس سے الہام حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنان ہمیشہ سے علمی مرکز رہا ہے، لیکن انقلاب اسلامی سے پہلے علماء عوامی بہبود کے لئے عملی اقدامات اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تھے۔ مثال کے طور پر، علامہ سید عبد الحسین شرف الدین جیسے جلیل القدر عالم دین جو کہ مسجد الحرام میں نماز جماعت کی امامت بھی فرما چکے ہیں، لبنان میں ایک اسکول قائم کرنے کے لئے حکومتی اجازت لینے میں ناکام رہے، جس سے اس وقت لبنان میں سیاسی بصیرت اور قوت کے فقدان کا اندازہ ہوتا ہے۔ لبنان میں امام موسٰی صدر جیسے علماء نے سیاست اور دیانت کے امتزاج سے ایک نئی راہ ہموار کی، جس کے نتیجے میں وہ ولایت فقیہ سے الہام حاصل کرنے میں پیش پیش رہے۔ آج حزب اللہ لبنان نہ صرف شیعہ برادری کی سیاسی و سماجی قوت سمجھی جاتی ہے بلکہ یہ شیعہ سنی یکجہتی اور مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں، کے درمیان حسن سلوک کا ناقابلِ شکست قلعہ بھی تسلیم کی جاتی ہے۔

آغا عبد الحسین نے مزید کہا کہ ہمیں بھی لبنان کی طرح انقلاب اسلامی سے الہام لیتے ہوئے اپنے مسائل کے حل خود تلاش کرنے ہوں گے۔ حزب اللہ لبنان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ایک زندہ مثال ہے، جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

مولانا عبد الحسین نے حدیث نبوی کی روشنی میں موت کی حقیقت اور عالم کی موت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جہاں قرآن موت و حیات کو امتحان قرار دیتا ہے، وہیں نبی اور امام موت کی اقسام کو اجاگر کرتے ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "عالم کی موت ناقابلِ تلافی نقصان ہے، اور یہ ستارے کے خاموش ہونے کے مترادف ہے۔" امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا کہ "افضل ترین موت شہادت کی موت ہے، اور شمشیروں کے واروں سے ہزار مرتبہ مرنا بستر پر ایک بار مرنے سے زیادہ آسان ہے۔" اسی وجہ سے جب کوئی شہید ہوتا ہے، تو ہم اسے مبارکباد بھی دیتے ہیں اور اس کے پسماندگان کو تسلیت بھی پیش کرتے ہیں۔ مبارکباد شہید کی کامیاب موت پر اور تسلیت اس کے اہل خانہ کے لئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام نے عالم کی موت کو ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا ہے، اور جب امام حسین علیہ السلام جیسے معصوم امام کو شہید کردیا گیا،تو اس مصیبت کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اسی لئے ہم ہر مناسبت پر، خاص کر شہادت کی یاد میں، امام حسین علیہ السلام کے نام پر عزاداری کرتے ہیں۔ آج سید مقاومت شہید حسن نصر اللہ کی یاد میں حسینی مجالس کا انعقاد بھی اسی تربیت کی عکاسی ہے، کیونکہ وہ اسی مکتب حسینی کے مجاہد عالم تھے، اس لئے ان کی شہادت پر جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے، وہ کم ہے۔

آخر میں آغا عبد الحسین بڈگامی نے مصائب محمد و آل محمد علیہم السلام کا تذکرہ کیا، جس کے بعد مجلس عزاء اختتام پذیر ہوئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .