حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ایک معروف سکھ پوڈکاسٹر ہرمیت سنگھ جو کہ اپنی منفرد گفتگو اور متنوع موضوعات پر مبنی پوڈکاسٹس کے لیے جانے جاتے ہیں، انہوں نے پاکستان کے معروف عالم دین علامہ انور علی نجفی کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کی ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
میزبان: اس وقت اگر ہم دیکھیں تو ایک جنگ جاری ہے، جو میں کسی مذہب یا فرقے کے ساتھ نہیں جوڑتا۔ میں نے ایک سال پہلے بہت سے مظلوم لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن اس جنگ میں جو چیز مجھے اندر سے چُبھ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک طرف معصوم لوگوں کی لاشیں ہیں اور دوسری طرف مسلمان ممالک کہاں ہیں؟ جو خبریں ہمیں مل رہی ہیں، ان میں زیادہ تر مسلمان ممالک ہی شامل ہیں۔
علامہ انور علی نجفی: سب سے پہلے یہ بات واضح کر دوں کہ آج کے دور میں انسان اپنے وسائل سے ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ تاریخ میں بہت کچھ ہوا ہے، مگر آج کا انسان اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ہر نظریہ تاریخ کو اپنے انداز میں پیش کرتا ہے، اور آج یہ ممکن نہیں رہا کہ کسی چیز کو چھپایا جا سکے۔
میزبان: بہت خوب، آپ نے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بچے، بوڑھے اور خواتین جو اسرائیل کے حملوں میں مارے جا رہے ہیں، ان کی مظلومیت کا کیا ہوگا؟ اس جنگ میں گزرے ایک سال سے زائد عرصے میں ان لوگوں نے کبھی سفید جھنڈا نہیں لہرایا۔ آپ اس صبر اور استقامت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
علامہ انور علی نجفی: ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کربلا نے یہ ثابت کیا ہے کہ ظلم اور بربریت کے ذریعے کوئی تحریک ختم نہیں ہوتی، بلکہ ایسی تحریکیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم غزہ کے مظلومین کی بات کریں تو ان کے پاس جو کچھ ہے، اس کے باوجود وہ جنگ نہیں چھوڑتے۔ یہ ان کی عزم و ہمت کی مثال ہے۔
میزبان: اگر ہم بات کریں لبنان کی تو وہ ایک ایسا ملک ہے جس نے بہت حوصلہ دکھایا ہے۔
علامہ انور علی نجفی: جی، لبنان نے خاص طور پر اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جب 7 اکتوبر کو یہ معاملہ شروع ہوا، تو 8 اکتوبر کو حزب اللہ بھی متحرک ہو گئی۔
میزبان: آپ کی بات درست ہے۔
علامہ انور علی نجفی: یہ سب کچھ تاریخ کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ لبنان کی تاریخ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جب ایک قوم مظلوم ہو، تو وہ اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ حزب اللہ نے جو جدوجہد کی ہے، وہ ایک مثال ہے کہ کیسے قومیں اپنی آزادی کے لیے کھڑی ہو سکتی ہیں، اس میں مراجع کرام کا بہت بڑا کردار ہے۔
میزبان: بہت خوب، آپ کی گفتگو بہت معلوماتی ہے۔ آپ نے مراجع کی بات کی، ان کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
علامہ انور علی نجفی: جی ہاں، ہمارے مراجع کرام ایک ایسی اتھارٹی ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں اسلامی مسائل پر فتوے دیتے ہیں۔ جب داعش کے خلاف جہاد کفائی کا فتویٰ جاری ہوا، تو مرجعیت نے داعش کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ فتوے مراجع کی طاقت کی علامت ہیں، اور ان کی آواز مظلوموں کی حمایت کرتی ہے۔
میزبان: آپ کا بہت شکریہ، آپ نے بہت خوبصورت انداز میں اپنی باتیں پیش کیں۔ آپ نے مراجع کراث کے فتوے کا ذکر کیا، اور یہ بھی واضح کیا کہ یہ فتوے ایک حکم جہاد کی طرح ہیں، جو عوام کی بیداری کا سبب بنتے ہیں۔
علامہ انور علی نجفی: بالکل درست! جب آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے کہا کہ فلسطینی ہمارے شہری ہیں، تو اس کا مقصد ان کے ساتھ محبت اور انسانیت کی بنیاد پر برتاؤ کرنا تھا۔ عراقی عوام نے اس فتوے کے تحت فلسطینیوں کی مدد کی، ان کے لیے رہائش، خوراک اور علاج کا انتظام کیا۔ یہ ایک بڑی مثال ہے کہ کیسے مراجع کرام کی آواز مظلوموں کے لیے طاقت بن جاتی ہے۔
میزبان: یہ بات واقعی دل کو چھو لینے والی ہے۔ آپ نے بتایا کہ یہ فتوے صرف ایک دینی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ یہ عمل انسانیت کی بنیاد پر ہے۔ آپ نے بھی ذکر کیا کہ یہ ماضی کی مثالوں جیسے میثاق مدینہ کے ساتھ منسلک ہے، جب انصار اور مہاجر ایک دوسرے کے بھائی بنے۔
علامہ انور علی نجفی: بالکل! یہ محبت اور بھائی چارہ ہی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کا رویہ کس طرح مظلوموں کے خلاف ہے۔ ہماری عوام کو بیدار ہونا چاہیے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ہے۔
میزبان: اسرائیل کے بارے میں جو باتیں کی جاتی ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ ایک گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کے لیے کتنے آگے بڑھ سکتا ہے؟
علامہ انور علی نجفی: یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ شہیدوں کا خون اس خواب کو چکنا چور کر چکا ہے۔ آج اسرائیل کی حیثیت یزید جیسی ہو گئی ہے۔ وہ صرف اپنے مظالم کی وجہ سے دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف مسلمان، بلکہ غیر مسلم بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
میزبان: آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں، وہ واقعی اہم ہیں۔ اگر ہم بات کریں جنگ کی، تو یہ ضروری ہے کہ عوام کو بھی اپنے حقوق کا پتہ ہو۔ آپ کو کیا لگتا ہے، ہماری ریاست اسرائیل کے سامنے اب خم ہو چکی ہے؟
علامہ انور علی نجفی: آپ نے درست کہا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کے جذبات میں بے چینی پیدا ہو گی۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں سڑکوں پر آ کر اپنی آواز بلند کرنی ہے، صرف سوشل میڈیا پر رہنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔
میزبان: یہ باتیں واقعی اہم ہیں۔ آپ نے اپنے عراق کے سفر کے بارے میں بھی ذکر کیا، جہاں آپ نے محبت اور اپنائیت کا تجربہ کیا۔ کیا یہ محبت ہمیں یہاں نہیں ملتی؟
علامہ انور علی نجفی: عراقی عوام کی محبت اور اپنائیت کا تجربہ انمول ہے۔ یہاں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انسانیت کی بنیاد پر ہم سب کا تعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مظلوموں کا ساتھ دیں اور ہر قسم کی بربریت کے خلاف آواز بلند کریں۔
میزبان: آپ کی گفتگو واقعی متاثر کن ہے۔ آپ نے جو باتیں کیں، ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محبت، استقامت، اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہی ہماری اصل ذمہ داری ہے۔ یہ نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی حیثیت بھی ہے۔
علامہ انور علی نجفی: جی ہاں، ہمیں ہمیشہ مظلوم کی حمایت کرنی چاہیے اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض ہے اور ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔
میزبان: بہت شکریہ، علامہ صاحب، آپ کی قیمتی آراء کا۔ امید ہے کہ ہمارے ناظرین آپ کی باتوں سے متاثر ہوں گے اور اپنا کردار صحیح معنی میں ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
علامہ انور علی نجفی: آپ کا بھی شکریہ، اور مجھے امید ہے کہ ہم سب مل کر مظلوموں کی حمایت کریں گے۔
میزبان: آپ کا بہت شکریہ۔ یہ تھی علامہ انور علی نجفی کے ساتھ ہماری اہم گفتگو، جو ہمیں محبت، بھائی چارہ اور استقامت کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔