حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے حزب اللہ کی جنگی طاقت اور اب تک غاصب اسرائیل کی نمایاں شکستوں اور خطے کی صورتحال پر آج ایک اہم خطاب کیا، جس میں آپ نے حزب اللہ کو طویل المدتی جنگ کی صلاحیتوں کی حامل مزاحمتی تحریک قرار دیتے ہوئے غاصب اسرائیل کی شکست کا تذکرہ کیا۔
شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید سید ہاشم صفی الدین حزب اللہ کی ایگزیکٹیو کونسل کے سربراہ اور ایک حلیم اور اسلام و ولایت کے عاشق تھے۔ وہ ایک منظم انسان تھے، جنہوں نے اپنے درست نقطۂ نظر کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ سید صفی الدین نے مزاحمتی مجاہدین پر خصوصی توجہ دی اور محاذوں کے مطالبات کا جواب دینے کی کوشش کی، وہ ان ممتاز لوگوں میں سے ایک تھے جن پر شہید سید حسن نصر اللہ کو مکمل اعتماد تھا۔
انہوں نے شہید کمانڈر یحییٰ السنوار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید یحییٰ السنوار فلسطین اور دنیا کے حریت پسندوں کی بہادری اور مزاحمت کی علامت ہیں، وہ میدان جنگ میں آخری دم تک لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ شہید السنوار ثابت قدم، بہادر، دیانتدار، سیدھے راستے پر چلنے والے، باعزت اور آزاد انسان تھے، شہید السنوار نے اپنی اسیری کے دوران دشمن کو خوفزدہ کیا اور آزادی کے بعد دشمن کی نیندیں حرام کر دیں اور ان کی شہادت کے بعد بھی دشمن ان سے ڈرتا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے شہید نصر اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے ہمارے سید! سید حسن نصر اللہ! آپ نے نوجوانوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے دلوں میں 32 سال تک ایمان اور مزاحمت کو زندہ کئے رکھا، آپ مقاومت کے پرچم دار تھے اور ہمیشہ مزاحمت کے فاتح پرچم دار رہیں گے، آپ مزاحمتی جوانوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور امید اور فتح کی خوشخبری سناتے رہیں گے۔
انہوں نے حزب اللہ کی قیادت سونپنے پر اعلیٰ کونسل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اور اس کی معزز کونسل اور مجاہدین اور لوگوں کے اعتماد کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے مجھے اس اہم اور سنگین ذمہ داری کا قابل جانا اور منتخب کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ، شہید سید عباس موسوی کی میراث ہے، جن کی بنیادی سفارش اور وصیت یہ تھی کہ مزاحمت کو جاری رکھا جائے۔
شیخ نعیم قاسم نے حزب اللہ اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک عظیم رہبر، سید حسن نصر اللہ کی امانت ہے۔ مجھے ان کی تقریر کا وہ حصہ یاد آرہا ہے کہ سید عباس موسوی کی شہادت کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ دشمن حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کو قتل کرکے ہمارے اندر مزاحمت کے جذبے اور جہاد کے ارادے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہماری رگوں میں شہید عباس موسوی کا خون دوڑ رہا ہے اور ہم اس سمت میں آگے بڑھنے کے عزم کو مزید مضبوط کریں گے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارا آپریشنل پلان تمام سیاسی، جہادی، سماجی اور ثقافتی شعبوں میں ہمارے محبوب قائد سید حسن نصر اللہ کے اسی پلان کا تسلسل ہوگا۔ ہم اس جنگی پروگرام پر عمل درآمد جاری رکھیں گے، جو سید حسن نصر اللہ نے مزاحمت کے لئے قائم کیا تھا اور ہم روایتی سیاسی نقطۂ نظر کے فریم ورک کے اندر جنگ کی راہ پر گامزن رہیں گے۔
انہوں نے غزہ جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی خطرے کے خلاف غزہ کی حمایت پورے خطے پر فرض تھی اور ہے اور غزہ کے باسیوں کی مدد کرنا ہر ایک پر فرض ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ ہماری مزاحمتی تحریک قابض حکومت اور اس کے توسیع پسندانہ اہداف کا مقابلہ کرنے اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔
حزب اللہ لبنان کے نو منتخب سیکریٹری جنرل نے کہا کہ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کو غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ پر اکسایا گیا، لیکن کیا اس قابض حکومت کو کسی بہانے کی ضرورت ہے؟ کیا ہم 75 سالوں سے غاصب ریاست کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام اور بے گھر کرنے اور زمینوں اور پناہ گاہوں کو غصب کرنے اور ان پر مظالم ڈھانے کو بھول گئے ہیں؟
انہوں نے تاکید کی کہ سنہ 2000ء میں بین الاقوامی قراردادوں نے اسرائیلی دشمن کو لبنان سے نکال باہر نہیں کیا، بلکہ یہ مزاحمت تھی جس نے اسے بھاگنے پر مجبور کیا۔
شیخ نعیم قاسم نے غاصب اسرائیل کی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تک صیہونی حکومت 39 ہزار مرتبہ لبنان کی فضائی اور سمندری حدود کی خلاف ورزی کر چکی ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے چند دنوں بعد حزب اللہ پر حملہ کرنے کے لیے اس حکومت اور امریکہ کے درمیان مشاورت اور بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم صیہونی منصوبے کو مزاحمت کے ذریعے روکیں گے اور ہم ایسا کرنے کے قابل ہیں۔ جب نیتن یاہو نے لبنان پر حملہ کیا تو اس نے کہا کہ ان کا مقصد ایک نیا مشرق وسطیٰ بنانا ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ اب ہمیں غزہ، لبنان اور خطے میں ایک بڑے صیہونی منصوبے کا سامنا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ غاصب اسرائیل نے اس جنگ میں مزاحمت کو تباہ کرنے کے لیے دنیا کی تمام دستیاب صلاحیتیں استعمال کی ہیں۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں تاکہ وہ ہمارے مستقبل پر غلبہ حاصل کر سکیں۔ یہ صیہونی، امریکی، یورپی اور عالمی دنیا ہے اور اس کا ہدف خطے میں مزاحمت کو تباہ کرنا ہے۔
انہوں نے مزاحمتی محاذوں کی طاقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پچھلے 11 مہینوں سے اعلان کرتے آرہے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم فتح تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم کسی کی طرف سے نہیں لڑ رہے، بلکہ ہم لبنان کے دفاع اور سرزمین کی آزادی اور غزہ کی حمایت کے لیے لڑ رہے ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ غزہ اور لبنان میں مزاحمت کی شاندار استقامت نے عزت و سربلندی کی تاریخ رقم کی ہے اور مزاحمت ہی ہماری نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرے گی۔
انہوں نے ایران کی مزاحمتی محاذ کی حمایت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمارے پاس موجود پروگرام اور مشن کی وجہ سے ہماری حمایت کرتا ہے اور ہم سے کچھ نہیں مانگتا۔ ہم امام خمینی (رح) کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے سرزمین کے دفاع کے لیے اسرائیل کے مقابلے راستہ دکھایا اور امام خامنہ ای نے بھی بہادری سے اس پرچم کو اٹھایا اور مجاہدین کو تمام ضروری مدد فراہم کی ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ہم سخت صدموں کے بعد بھی ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں، کیونکہ حزب اللہ ایک منظم ادارہ اور مضبوط تحریک ہے، جس کے پاس امکانات ہیں۔ حزب اللہ پر حملوں کا حجم ہمارے لیے تکلیف دہ تھا، خاص طور پر رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور پیجر کے واقعے کے بعد، لیکن حزب اللہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے پاس طویل المدتی جنگ میں شامل ہونے کے لیے کافی اور مناسب صلاحیتیں موجود ہیں، اگلے مورچوں پر موجود مزاحمتی جوان ایمان اور حوصلے کا پیکر ہیں اور وہ شہادت کے خواہشمند ہیں اور ہرگز ممکن نہیں ہے کہ کوئی ان پر غلبہ پائے۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہمارے قائدین نے کہا: ہم آمنے سامنے کی جنگ کا انتظار کر رہے ہیں اور حملے فرنٹ لائن پر مرکوز ہیں، جبکہ دشمن خوفزدہ اور اپنی جنگی پوزیشن اور اہداف بدلنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ مجاہدین کے اختیار میں تمام ضروری سہولیات موجود ہیں اور وہ مضبوط اور طاقتور ہیں۔ مزاحمت کے آپریشن روم نے دشمن کے نقصانات کو دستاویزی شکل دی ہے، ہماری مزاحمت ایک حماسہ اور آزاد نسلوں کا مکتب ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن نے حزب اللہ کے میزائلوں اور ڈرونز کے مقابلے میں اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیا ہے اور اسے ایک طے شدہ فیلڈ پلان کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، دشمن کے فضائی حملوں کے باوجود میزائل لانچنگ پلیٹ فارم نصب کرنے کی مزاحمت کی طاقت غیر معمولی ہے اور ہم عزت کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات کو واضح کیا کہ ہم صرف اڈوں اور فوجیوں کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن وہ انسانوں اور ہر جاندار اور بے جان چیز کو نشانہ بناتے ہیں۔ دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے دیہاتوں اور شہروں پر حملے کی وجہ سے مزاحمت نہیں رکے گی اور مزاحمت اس حد تک مضبوط ہے کہ وہ نیتن یاہو کے کمرے کو ڈرون حملے کا نشانہ بنانے میں کامیاب رہی ہے، اگرچہ نیتن یاہو اس بار بچ گئے اور شاید ان کی موت ابھی نہیں آنی تھی۔ ہم نے دشمن پر دردناک وار کیے ہیں اور بنیامین بیس کو نشانہ بنانا اور حیفا، عکا اور دیگر مقبوضہ علاقوں پر کامیاب حملے اس کا بہترین ثبوت ہیں۔