حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کا اسلحہ کوئی داخلی خطرہ نہیں بلکہ لبنان اور پورے محورِ مقاومت کے لیے ایک اسٹریٹجک سرمایہ ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں صہیونی فوجی کو امریکہ کی پشت پناہی جاری ہے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا دراصل خطے کو عزت و اقتدار سے محروم کرنا ہے۔
لبنان میں شیعہ برادری کا کردار
گزشتہ چند دہائیوں میں لبنانی شیعہ مشرقِ وسطیٰ کے اہم سیاسی و عسکری رکن بن کر ابھرے ہیں۔ یہ مقام صرف آبادی کے تناسب کی وجہ سے نہیں بلکہ منظم ڈھانچوں جیسے امل تحریک اور خصوصاً حزب اللہ کی وجہ سے ہے۔
ان کا ایران اور وسیع تر محورِ مقاومت سے گہرا تعلق ہے جس نے انہیں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مقابل ایک توازن قائم کرنے والی قوت میں بدل دیا ہے۔
ایران اور حزب اللہ کا تعلق
ایران، محور مقاومت کی فکری و عملی قیادت کے طور پر حزب اللہ کو تربیت، سازوسامان اور رہنمائی فراہم کرتا رہا ہے۔ ولایت فقیہ کی تعلیمات اور پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کی مدد نے جنوبی لبنان میں ایک ایسا قلعہ کھڑا کیا ہے جو نہ صرف شیعوں کے مفاد کا محافظ ہے بلکہ بیرونی خطرات کے مقابلے میں ایک مستحکم ڈھال بھی ہے۔
عراق اور یمن کی مثالیں بتاتی ہیں کہ جب عوامی مزاحمت منظم ہو تو وہ بیرونی تسلط کو شکست دے سکتی ہے؛ بالکل اسی طرح جیسے حزب اللہ نے لبنان میں کیا۔
حزب اللہ: ایک علاقائی قوت
حزب اللہ اب محض لبنانی تنظیم نہیں رہی بلکہ پورے خطے کی مزاحمتی قوت ہے۔
۲۰۰۰ میں اسرائیل کا لبنان سے انخلا،
۲۰۰۶ کی ۳۳ روزہ جنگ میں استقامت،
اور خطے میں دہشت گردی کے خلاف محاذوں پر مدد،
یہ سب حزب اللہ کی قوت اور مقبولیت کے ثبوت ہیں۔
مزاحمتی میڈیا عزت و کرامت کے بیانیے کو عام کرتا ہے اور اسرائیل سے صلح و سمجھوتے کی سوچ کو چیلنج کرتا ہے۔
حزب اللہ کے اسلحے کی اہمیت
لبنان سیاسی و معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے اور کچھ گروہ (بیرونی حمایت کے ساتھ) حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ:
حزب اللہ کا اسلحہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اصل ڈھال ہے، خاص طور پر جب لبنانی فوج محدود دفاعی صلاحیت رکھتی ہے۔
عراق و یمن نے ثابت کیا ہے کہ صرف نظریاتی و تربیت یافتہ عوامی فورس ہی بیرونی تسلط اور دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا دراصل لبنان کو اس کی خودمختار دفاعی قوت سے محروم کرنا اور اسرائیلی–امریکی منصوبوں کے دروازے کھول دینا ہے۔
نتیجہ
لبنان کے شیعہ اور حزب اللہ نے اپنی راہ خود طے کی ہے۔ چاہے ایران کی مدد رہے یا نہ رہے، وہ فکری اور تنظیمی بلوغت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ راستہ نسلوں کی بیداری اور قربانی کا نتیجہ ہے—ایک ایسا راستہ جو کرامت، عزت اور آزادی کو یقینی بناتا ہے۔
لہٰذا حزب اللہ کا اسلحہ داخلی خطرہ نہیں بلکہ لبنان اور پورے خطے کے لیے ایک اسٹریٹجک سرمایہ ہے۔









آپ کا تبصرہ