تحریر: مجید الاسلام شاہ
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کا کوئی بچہ جنگ کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ وہ محبت، کھیل کود، کہانیوں کے سائے میں نیند، اور ایک پرامن دنیا کی گود میں پروان چڑھنے کی امید لے کر آتا ہے۔ کسی بچے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی پہلی باتوں کے ساتھ ہی بندوقوں کی گرج سنے، یا جب وہ اپنے ننھے قدموں سے چلنا سیکھے تو اس کے قدم ملبے پر پڑیں۔
لیکن غزہ کے بچے آج اسی ہولناک حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں، وہ پیدا ہوتے ہی جنگ کی تباہی دیکھتے ہیں، بموں کی آواز سے ان کی نیندیں ٹوٹتی ہیں، اپنے عزیزوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنا ان کے روزمرہ کا حصہ بن چکا ہے۔
یہ ایک ایسا ظالمانہ اور غیر انسانی منظر ہے جو کسی بچے کی یادداشت میں نہیں ہونا چاہیے۔
ان کی آنکھوں میں اب کوئی خواب باقی نہیں، نہ ہنسی ہے، نہ معصوم تجسس۔
ان کی خاموش نگاہیں ہزاروں سوالات سے لبریز ہیں:
"دنیا ہمارے ساتھ اتنی بے رحم کیوں ہے؟"
یہ بچے ہماری تہذیب کا آئینہ ہیں۔
ان کی طرف دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت کس قدر پیچھے رہ گئی ہے۔
غزہ کے بچے صرف ایک علاقے یا قوم کی نمائندگی نہیں کر رہے، بلکہ وہ ظلم کا شکار پوری انسانیت کی علامت بن چکے ہیں۔
وہ صرف امن چاہتے ہیں، تحفظ چاہتے ہیں، اور تھوڑی سی محبت کے طلبگار ہیں۔
ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہی ہمارا ضمیر جھنجھوڑا جاتا ہے، کیونکہ ان نظروں کے پیچھے چھپی ہے صرف ایک التجا:
"ہمارے لیے کچھ کرو!"
یہ التجا صرف سیاسی نہیں، بلکہ ایک عمیق انسانی پکار ہے—جو ہمارے ضمیر، ہمدردی، اور عملی اقدام کا تقاضا کرتی ہے۔
ظلم و جبر کے ہاتھوں بچپن کا سلب ہونا
غزہ کی وادی آج گویا ایک عظیم قید خانہ ہے جہاں بے یارومددگار بچے قید پڑے ہیں۔ سالہاسال سے جاری اسرائیلی محاصرے، مسلسل تصادم اور تباہ کن فضائی حملوں نے غزہ کی اس چھوٹی سی وادی کو ایک ایسے محصور خطے میں بدل دیا ہے جہاں بچے ہر لمحہ اپنا بچپن کھو رہے ہیں۔ امن کے خواب تو دُور کی بات، کیونکہ ان کے گرد ہر وقت بم دھماکوں کی گھن گرج، گولیوں کی آوازیں اور موت کا سایہ—یہ تینوں ہی گویا ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
غزہ کے بچے کبھی نہیں جانتے تھے کہ جنگ، بھوک اور بے خواب راتوں کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مگر اب حقیقت ان کے مشاہدے سے باہر نہیں رہی؛ یہ بچے جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان پروان چڑھ رہے ہیں، تباہی کے ملبے میں پل رہے ہیں۔ ان کے کانوں میں بم دھماکوں کی گونج سر چڑھ کر بولتی ہے جو ان کے خوابوں کو خلا میں بدل دیتی ہے۔ ان کی نیندیں دھماکوں کی آواز سے چکنا چور ہوتی ہیں، راتیں دہشت اور کرب میں گزرتی ہیں۔
کھیل کے میدان آج مٹی پر بکھری دھول آلود جگہوں میں تبدیل ہو چکے۔ بچے اب کھیل نہیں پاتے، ان کے چہروں پر وہ شگفتہ مسکراہٹیں غائب ہیں۔ وہ اسکول جہاں خواب بُنے جاتے تھے، آج ملبے کے ڈھیر ہیں۔ درس گاہوں کی چار دیواریاں اب صرف یادوں کی گواہ ہیں، جہاں کبھی ہزاروں بچوں کی شادمانی گونجتی تھی۔ اب وہاں صرف مٹی کی بو اور دھوئیں کے دھندلکے ہیں۔
پیاروں کے چہرے شاید انہوں نے آخری بار دیکھ لیے ہیں، شاید کبھی پھر نہ دیکھ سکیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، رشتہ دار—سب گویا دور کی کوئی غیر حقیقی چھایا بن گئے ہیں جنہیں نہ تو تحفظ دیا جا سکتا ہے نہ پناہ۔
ان چھوٹی چھوٹی جانوں کی آج صرف ایک ہی تمنا ہے: ذرا سی سلامتی۔ نہ وہ کھلونے چاہتے ہیں، نہ مٹھائیاں—وہ تو بس تھوڑی سی حفاظت چاہتے ہیں، تھوڑا سا کھانا، معمول کی زندگی کا ذرا سا لطف۔ جہاں وہ بے خوف ہنستے ہوں، جہاں محفوظ طریقے سے سو سکیں، جہاں ان کا بچپن لوٹ آئے۔
یہ نوجوان جن کی آنکھوں میں ہم مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں، آج ماضی کے دکھوں اور حال کی بے یقینی کے ہم سفر بن گئے ہیں۔ خوف نے ان کی نظروں پر پردہ ڈال دیا ہے، ان کے دلوں پر گہرے زخم بیٹھ گئے ہیں۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) سمیت بے شمار تنظیموں نے اس انسانی بحران کی جانب توجہ دلائی ہے۔ مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اور سفارتی پیچیدگیوں کے بیچ بچوں کی یہ پکار نظرانداز ہو جاتی ہے۔ غزہ کے ان بچوں کے لیے صرف بین الاقوامی سفارتکاری نہیں، بلکہ ایک خلوص آمیز انسانی ردعمل درکار ہے جو ان کی حفاظت اور بنیادی حقوق یقینی بنائے۔
غزہ سے آنے والے ہر بچے کی آنکھوں میں آج بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری اور فرض جگمگا رہا ہے۔ وہ ہماری جانب ایک کرب انگیز پکار ہیں: *"ہمارے لیے کچھ کرو۔"* اگر ہم نے ان کی آواز کو نظرانداز کیا تو انسانیت کے سامنے اپنے فرائض سے ہم خود کو کاٹ چکے ہوں گے۔
بچے جنگ کے خلاف معصوم نظموں کی مانند ہیں، امن کا ایک تنہا خواب۔ ہم سب پر فرض ہے کہ متحد ہو کر کام کریں تاکہ غزہ کے بچے اپنا کھویا ہوا بچپن پا سکیں، تاکہ وہ کھیل سکیں، ہنس سکیں اور ایک محفوظ دنیا میں پروان چڑھ سکیں—جہاں جنگ کا خوف ان کی زندگیوں سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے۔
بھوک اور رہائش کا بحران
غزہ کی پٹی میں جاری محاصرہ اور مسلسل جھڑپوں کے نتیجے میں آج اس علاقے میں روزمرہ ضروری اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ بازار اشیاء سے خالی ہو چکے ہیں، اور غذاؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، جو غزہ کے باسیوں کے لیے ایک ناقابل برداشت عذاب بن چکی ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے غذائیت بخش خوراک کا حصول ایک نایاب خواب بن چکا ہے۔ بے شمار بچے کئی کئی دن آدھے پیٹ یا ادھوری خوراک پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بھوکے جسم متوازن اور قابلِ اعتماد خوراک کے محتاج ہیں، مگر حقیقت میں ان کے حصے میں صرف بھوک کا درد اور جسمانی کمزوری آتی ہے۔
بچے کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں، ان کی قدرتی نشوونما رک چکی ہے۔ غذائی قلت کے باعث ان کی قوتِ مدافعت گھٹتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے سانس کی بیماریوں، دست، بے ہوشی اور دیگر مہلک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ طبی سہولیات کے بحران کی وجہ سے اکثر اوقات دوا اور علاج ان کی دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔
خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ غزہ کے بچے محفوظ رہائش سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ محاصرہ اور جنگ نے بجلی کی فراہمی منقطع کر دی ہے، صاف پانی کی شدید قلت ہے اور علاج کی سہولیات نہایت محدود ہیں۔ بمباری کے تباہ کن حملوں نے بے شمار گھر تباہ کر دیے ہیں، جس سے بچوں کے سونے کی جگہ سے لے کر محفوظ پناہ گاہ تک، سب کچھ چھن چکا ہے۔ بہت سے بچے اب ملبے اور ٹوٹی دیواروں کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں نہ سردی گرمی سے بچاؤ ہے، نہ طوفان و بارش سے تحفظ۔
اسکول، اسپتال اور دیگر شہری سہولیات بھی بمباری کی زد میں آ چکی ہیں۔ تعلیمی ادارے جو کبھی بچوں کی ہنسی سے گونجتے تھے، اب کھنڈرات میں بدل چکے ہیں، جہاں اب صرف ویرانی اور گرد کا راج ہے۔ اسپتال بھی مکمل طور پر فعال نہیں، ڈاکٹروں، نرسوں اور ادویات کی قلت کے باعث بے شمار مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
یہ بدقسمت بچے اب انہی کھنڈرات میں اپنی کھوئی ہوئی یادیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں: ٹوٹی پھوٹی کھلونوں کی باقیات، جلے ہوئے کتابوں کے نشان، یا لاپتہ ہو چکے بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی تلاش۔ ان کی یہ جستجو ایک الم ناک سفر ہے جو دلوں کو چھلنی کر دیتا ہے اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
غزہ کے بھوکے بچوں کی یہ زندگی ہم سب کے ضمیر کے لیے ایک کڑی پکار ہے۔ یہ محض ایک سیاسی بحران نہیں، بلکہ ایک گہرا انسانی المیہ ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے ستونوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ ان بچوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مناسب خوراک، محفوظ پناہ گاہیں اور بنیادی صحت کی سہولیات مہیا کی جائیں، تاکہ وہ بھی نئی زندگی کے خواب دیکھ سکیں۔
قتل اور عزیزوں کے کھونے کا دکھ
غزہ کے بچے ایک غیر انسانی حقیقت کے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں، جہاں موت ایک روزمرہ واقعہ ہے اور محبت گویا ایک نایاب عیش۔ ہر روز وہ اپنی آنکھوں سے اپنے لاتعداد عزیزوں کو کھوتے دیکھتے ہیں جو ان کی زندگی کا حصہ ہونے چاہیے تھے۔ جب باپ گولیوں سے چور ہو کر زمین پر گرتا ہے، ماں کے رونے کی آہیں ان کے کانوں میں بے پایاں درد کی دھن بن کر گونجتی ہیں۔ بہن بھائی، جو ان کے سب سے بڑے ساتھی اور عزیز ترین دوست تھے، اکثر خاموشی سے درد میں تڑپتے رہ جاتے ہیں، زخمی لاشوں کی صورت پڑے رہتے ہیں—یہ مناظر بچوں کے ذہنوں پر ناقابلِ مٹ دھبے چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ منظر صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ جب بچے خواب سجھانے بیٹھتے ہیں، تو عزیزوں کی جدائی دیکھتے ہیں—ایسی رخصتی جس کے واپس آنے کا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ موت محض جسمانی نقصان نہیں، بلکہ ان کے معصوم دلوں پر ایسا گہرا زخم لگاتی ہے جو زندگی کے ہر لمحے میں تازہ رہتا ہے۔
ان کی آنکھوں میں ایک خلا سما جاتا ہے جہاں بچپن کی معصوم خوشیاں، قہقہے اور میٹھے خواب غائب ہو جاتے ہیں۔ ان کی نفسیات مسخ ہو جاتی ہے: وہ موت کو سمجھنے پر مجبور ہیں، محبت پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، اور ان کے دلوں کے کسی کونے میں غم کی ایک لمبی، خاموش تاریکی جنم لے لیتی ہے۔
یہ بچے ایسی دنیا میں پل رہے ہیں جہاں حفاظت نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں پیاروں کی موت کا مشاہدہ زندگی کا حصہ ہے۔ ان کے لیے محبت آج ایک تعیش بن گئی ہے، کیونکہ جو زندہ ہیں وہ خود بھی روزانہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے زخمی دل میں محبت کی فصل اگانا کتنا مشکل ہے—یہ سوال پوری انسانیت سے پوچھتا ہے۔
غزہ کے بچے صرف کھوئے ہوئے عزیزوں کے غم میں نہیں ڈوبے؛ وہ اس گہرے سوگ میں اپنے خواب، امیدیں اور صلاحیتیں بھی کھو بیٹھے ہیں۔ وہ ایسی حقیقت میں جی رہے ہیں جہاں موت اور محبت کے درمیان ایک تباہ کن خلیج حائل ہو چکی ہے۔
اس دکھ کے بیچ بھی، ان کے چھوٹے سے سینے کی گہرائیوں میں امید کی ایک چھوٹی سی شمع ٹمٹماتی ہے—ایک ایسی دنیا کا خواب جہاں وہ پھر سے پرامندگی سے جی سکیں، جہاں ان کا بچپن لوٹ آئے، اور جہاں انہیں محبت کا سکون ملے۔ وہ اس دن کا انتظار کرتے ہوئے اب بھی صبر سے کھڑے ہیں، انسانیت کے نام ایک آخری پکار لگاتے ہوئے: "ہمیں بچاؤ، ہمیں پیار دو۔"
بچے تَک رہے ہیں، مگر کس کی طرف؟
غزہ کے بچے خاموشی سے ایک ان دیکھے اور غیر یقینی فاصلے کی طرف تکے جا رہے ہیں—یوں جیسے ان کے سانسوں میں چھپی گہری اذیت کا کوئی جواب وہاں چھپا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے، وہ آخر کس کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ کیا اُن کی معصوم آنکھیں انسانی ضمیر کی طرف اُٹھی ہیں؟ کیا وہ اقوامِ متحدہ کی دہلانے والی قسموں کی جانب دیکھ رہے ہیں؟ یا مسلم دنیا کے اتحاد کے کھوکھلے وعدوں کی طرف؟ یا شاید ہماری، تمہاری، ان سب کے طرف جو اپنی معمول کی زندگی میں مگن ہیں؟
یہ ننھی جانیں اپنی آنکھوں میں ہزاروں سوال لیے پھرتی ہیں۔ کوئی ان کی آواز کیوں نہیں سنتا؟ کیوں دنیا کی طاقتور ریاستوں کے محفوظ اجلاسوں تک ان کی چیخیں نہیں پہنچتیں؟ کیوں بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں سے ان کی الم ناک تصویریں غائب ہو جاتی ہیں؟
یہ بچے لگاتار دیکھے جا رہے ہیں، جیسے ان کے دل کی صدا سننے کوئی آئے گا، کوئی ان کو بچانے کے لیے آگے بڑھے گا۔ لیکن دنیا کے اُن بڑے بڑے اسٹیجوں پر، جہاں امن اور انسانی حقوق پر گفتگو ہوتی ہے، ان معصوموں کا وجود گویا ایک نظر نہ آنے والا دھبہ بن چکا ہے۔ کیا کوئی ان کے خوابوں کے بارے میں سوچتا ہے؟ کیا کوئی ان کا بچپن لوٹانے کا تصور کرتا ہے؟
ان کی آنکھوں میں ایک گہری تنہائی رقم ہے، ایک عاجزانہ التجا چھپی ہے—"ہمارے لیے کچھ کرو"—لیکن یہ صدا کسی کان تک نہیں پہنچتی۔ وہ معصوم ہیں، بے گناہ ہیں، وہ صرف امن کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں نہ کوئی نفرت ہے، نہ عداوت؛ صرف امید کی ایک کرن، جسے کوئی روشن کر سکتا ہے—مگر بیشتر لوگ اُس روشنی کی طرف دیکھتے ہی نہیں۔
وہ انسانوں کے دل کی طرف دیکھ رہے ہیں، انسانیت کے منصفوں کی طرف، مگر وہ دروازے آج بھی ان کے لیے بند ہیں۔ وہ منتظر ہیں کسی ایسے انسان دوست مجاہد کے جو جنگ کی آگ بجھا دے، جو امن کی ہوا لے آئے، جو ان کا کھویا ہوا بچپن واپس کر دے۔
یہ خاموش پکار ہمارے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ آج یہ بچے ہماری نگاہوں کے منتظر ہیں، ہماری مدد کی آس میں بیٹھے ہیں۔ ان کی آنکھوں کا بس ایک سوال ہے:
"کیا ہم ان کے لیے کچھ کریں گے؟"
راہِ حل اور ہماری ذمہ داریاں
جب غزہ کے معصوم بچوں کی دکھ بھری زندگی ہمارے دل کو چھو جاتی ہے، تب یہ سوال جنم لیتا ہے—کیا ہم صرف دیکھتے رہیں گے، یا ان کے لیے کچھ کرنے کے لیے آگے بھی بڑھیں گے؟ ان کا بچپن لوٹانے کے حق کی حفاظت کے لیے ہمارا سرگرم ہونا ناگزیر ہے۔ آئیں دیکھیں ہم ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں، اور کیسے ان کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں:
۱۔ آگاہی پھیلانا:
سب سے پہلے ہمیں یہ اذیت ناک حقیقت دنیا کے سامنے لانی ہوگی۔ میڈیا، سوشل میڈیا، بلاگز، مضامین اور مکالموں کے ذریعے غزہ کے بچوں کی موجودہ صورتِ حال کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔ جتنا زیادہ لوگ اس درد سے واقف ہوں گے، اتنا ہی عالمی سطح پر توجہ مبذول ہوگی۔ سچ کو روشنی میں لانا اور غلط معلومات کے خلاف ڈٹ جانا ہمارا پہلا فرض ہے۔
۲۔ انسانی امداد پہنچانا:
دنیا کا ہر فرد یا ادارہ، بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کے ذریعے غزہ کے بچوں کے لیے خوراک، صاف پانی، طبی سہولیات، تعلیمی وسائل اور محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر سکتا ہے۔ یہ مدد ان کے لیے امید کی کرن بنے گی اور ان کی جدوجہدِ زندگی میں ایک مؤثر سہارا فراہم کرے گی۔ بھوکے چہروں پر مسکراہٹ لانا، علاج سے زندگیاں بچانا—یہ سب ہمارے چھوٹے چھوٹے اقدامات کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
۳۔ سیاسی دباؤ پیدا کرنا:
صرف امداد کافی نہیں، پائیدار امن کے لیے مؤثر سیاسی اقدامات بھی درکار ہیں۔ ہمیں اپنے ممالک کے حکمرانوں اور عالمی رہنماؤں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ غزہ کے محاصرے اور جاری مظالم کے خاتمے کے لیے سرگرم کردار ادا کریں۔ بے گناہ انسانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق اور امن کے ڈھانچوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ بطور ووٹر، شہری، اور سماجی ادارے، یہ ہماری اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے مطالبات اُن تک پہنچائیں۔
۴۔ دعا اور توجہ:
آخر میں، دل کی گہرائیوں سے ان بچوں کے لیے دعا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں ان کے لیے امن، تحفظ اور خوشیوں کی دعا کرنی چاہیے۔ صرف دعا ہی نہیں، بلکہ اُن کی تکلیف کو سننے، سمجھنے، اور دنیا تک اُن کی آواز پہنچانے والا ذریعہ بھی بننا ہوگا۔ دنیا کو اُن کی بات سنانی ہوگی، تاکہ وہ یہ محسوس کر سکیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔
غزہ کے یہ بچے ہماری اجتماعی انسانیت کا آئینہ ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے بیدار ہوں، مدد فراہم کریں، سیاسی اور سماجی طور پر متحرک ہوں، اور دل سے ان کا ساتھ دیں—تو ان کا کھویا ہوا بچپن ایک خواب نہ رہے گا، بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔ ہمارا آج کا عمل ان کی زندگیوں میں روشنی لا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پُرامن دنیا کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
یاد رکھیں، ہم میں سے ہر ایک کا حصہ، خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، قیمتی ہے۔ غزہ کے بچوں کی زندگیاں بچانا درحقیقت انسانیت کی جیت ہے۔
آخری بات
غزہ کے بچے آج انسانی تہذیب کا وہ سیاہ آئینہ بن چکے ہیں، جس کے سامنے کھڑے ہو کر ہم اپنے اصل چہرے کو دیکھ سکتے ہیں—کتنے بے بس، کتنے نظرانداز کیے گئے، اور کتنے بے حس ہو چکے ہیں۔ یہ معصوم جانیں کچھ نہیں چاہتیں—نہ کوئی آسائش، نہ کوئی فالتو توقع۔ ان کی صرف ایک سادہ سی خواہش ہے: ایک ایسا انسان دوست دنیا، جہاں وہ امن سے سانس لے سکیں، جہاں ان کا بچپن خوشیوں سے لبریز ہو، نغموں کی مٹھاس سے گونجتا ہو، کھیلوں سے بھرپور ہو۔
وہ خواب دیکھنے کا حق مانگتے ہیں—ایسے خواب جو خون کی ندیاں عبور کر کے روشنی سے بھر جائیں۔
غزہ کے بچوں کی آنکھوں میں آج ہماری انسانیت جھلک رہی ہے۔ ان کی طرف دیکھنا دراصل اپنے ضمیر کی آنکھ سے جھانکنا ہے، اپنی انسانیت کے آئینے میں خود کو پرکھنا ہے۔ ان کی نگاہوں میں چھپی ہے ایک آخری پکار:
"ہمیں بچاؤ، ہمیں چاہو، ہمارے خوابوں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔"
اب بھی وقت ہے۔ اب بھی موقع باقی ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو سدھاریں، اپنی خاموشی کو توڑیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ کم از کم خاموش مت رہو۔ ان کے درد کو دنیا تک پہنچاؤ۔ ان کی پکار کو سچائی کی روشنی میں ڈھال دو۔ کیونکہ انسانیت کی کسوٹی اب ان کے وجود پر منحصر ہے۔
اگر آج ہم ان کے لیے کچھ نہ کریں، تو کل ہمارے اپنے لب بھی خاموش ہو جائیں گے۔
غزہ کے بچے ہم سب کے لیے انسانیت کی آخری آزمائش ہیں۔ ان کا ساتھ دینا خود اپنی شناخت سے وفاداری کا اعلان ہے، انسانیت کو سلام پیش کرنا ہے۔
لہٰذا…
آگے بڑھو—ان کے لیے، اپنے لیے، انسانیت کے لیے۔









آپ کا تبصرہ