تحریر: سیدہ فاطمہ رضوی
حوزه نیوز ایجنسی | آسمان کو دیکھو تو نظریں خود بخود جھک جائیں اس کے گرد و نواح میں نظر ڈالو تو دل دہل جائے اور رونگٹے کھڑے ہو جائیں ہاتھ پیر تھر تھرانے لگے اور دہشت کی ایک لہر دوڑ جائے۔یہ کیسا منظر ہے بارالہا یہ حقیقت ہے یا کوئی خوفناک خواب!!
کیا یہ وہی غزہ ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے زندگی حرکت میں تھی بچے اسکول جاتے ہوئے نظر آتے تھے اور سڑکوں پر گاڑیاں دوڑتی دکھائی دیتی تھیں ؟!
آسمان کو مت دیکھو اپنے گِرد و پیش سے منہ موڑ لو۔آنکھیں بند کر لو۔کیا ایسا کرنے سے ذہن پر طاری خوف ختم ہو جائے گا؟
آنکھیں بند کر کے حقیقت سے منہ موڑا نہیں جا سکتا۔آپ حیران ہوں گے کہ یہ کون کہہ رہا ہے اور کیوں ایسا کہا جا رہا ہے؟
جی ہاں یہ فلسطین ہے یہ غزہ ہے اور یہ یہاں کے ایک ایک بچے کی دل کی آواز ہے مظلوموں کی آہ و فریاد ہے مصیبت کے مارے،ظالم و سفاک صہیونی حکمرانوں کے گراۓ جانے والے بموں اور میزائلوں کی آگ میں سسک رہے ہیں کہ شاید کچھ لمحے بعد ان کا بدن بھی باقی برادران وطن کی طرح زمین پر خاک و خون میں غلطاں پڑا ہو۔جن کے گھر اُجڑ چکے ہیں۔اسکول اور ہاسپٹل ویران ہو چکے ہیں۔ اب ان بچوں کا سوائے اللّہ کے کوئی اور سہارا نہیں ہے ۔ پھر بھی ان کا ایمان قوی ہے اور یہ لوگ اتنے بلند ہمت ہیں کہ نہتھے ہو کر بھی پتھروں سے غاصب اسرائیل سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی ایمانی طاقت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ سنگ دل اسرائیلی فوج اُنہیں گرفتار کرتی جیلوں میں ڈالتی اور معصوم بچوں اور بےسرپناہ عورتوں کو اسیروقیدی بناتی ہے۔
فلسطین کے مظلوم ننھے ننھے پودے جو آگے جا کر ہرے بھرے درختوں میں تبدیل ہونے والے تھے اُگتے ہی مرجھا گئے۔ اور پھول جیسے نازک بدن بچے جلد اسرائیلی فوجوں کا نشانہ بن گئے۔
حیرت ہے دنیا والوں کے سامنے ان کی نسل کشی ہو رہی ہے بلکہ اسرائیلی لیڈران اعلانیہ معصوم فلسطینی بچوں کو قتل کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں جیسے یہ لوگ ہٹلر اور مسولینی کی روح کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے ضمیر مر چکے ہیں اور دل سخت ہو گئے ہیں جو بچے ،بوڑھے،جوان اور بیواؤں کی فریاد اُن کے کانوں میں نہیں جاتی ہے۔ہاسپٹل پر حملے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پناہ لی ہے، جہاں قانونی طور پر حملہ نہیں کیا جاسکتا کیا یہ جنگی جرائم نہیں ہیں UNO اور UNO جیسے اداروں کا غزہ کے مظلوم عوام کے بارے میں کیا کردار ہے؟جس طرح لیگ آف نیشنز (LN) ماضی میں خاموش تماشائی بنا رہا اسی طرح اب UNO بھی تماشہ دیکھ رہا ہے۔بلکہ اس کے اکثر و بیشتر ممبران اور مغربی برادری خود ہی صہیونیوں کے ساتھ کھڑے دیکھائی دیتی ہیں۔
ان بے گناہ بچوں کی فریاد کسی بھی ایسے شخص کو خاموش نہیں رہنے دے سکتی ہے جس کا ضمیر زندہ ہے اور اس کے اندر تھوڑی سی بھی انسانیت باقی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ انسان ہونا ضروری ہے اور کسی فلسطینی نے مسلم حکمرانوں کو یہ کہہ کر کیا خوب لتھاڑا کہ ہماری میتوں پر غائبانہ نمازِجنازہ نہ پڑھیں کیونکہ ہم زندہ ہیں اور آپ مر چکے ہیں۔
آج کوئی بھی انصاف پسند انسان جس کے اندر انسانیت پائی جاتی ہے وہ خاموش نہیں بیٹھے گا اور اپنا فریضہ سمجھ کر غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرے گا۔ خدا ظالموں سے ایک دن ضرور بدلہ لینے والا ہے۔
امام علی علیه السلام نے فرمایا:يَوْمُ آلْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى آلْمَظْلُومِ. ظالم کے خلاف مظلوم کا دن مظلوم پر ظالم کے دن سے زیادہ سخت ہو گا۔ نهج البلاغه حکمت(٢٤١)