۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
News ID: 395775
8 جنوری 2024 - 17:42
نجیب حیدر بنارسی

حوزہ/ آج کانوجوان کہاں جارہاہے ؟اورکس موڑ پر کھڑا ہے؟آج کاترقی یافتہ ماحول نوجوانوں کو ایسے دلدل میں ڈھکیلےجارہاہے جو مقصد حیات کو دھنسا دینےوالاہے دور حاضر میں نوجوان عصری تعلیم کے کیرئیرزم میں ایسا مشغول کردیاجارہاہے کہ اس کو دین تک پڑھنےکی فرصت نہیں مل رہی ہے۔

تحریر: نجیب حیدر بنارسی

حوزہ نیوز ایجنسی | نوجوانی انسانی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت کانام ہے کیوں کہ کسی بھی ملک وملت کی پیشرفتی اورترقی میں نوجوانوں کااہم کردار ہوتاہے ،معاشرے کومنزل معراج تک پہونچانےکےلئے نوجوان نسل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،قوم کی امیدیں نوجوانی سےوابستہ ہوتی ہیں ۔

ہر انقلا ب چاہےوہ کسی بھی سطح کا ہو چاہے اقتصادی ہو، چاہے سیاسی ہو، معاشرتی ہو یا ملکی ہو ان تمام میدانوں میں نوجوانوں کا کردار ہوتاہے۔ اگرآپ ماضی کی تاریخیں اٹھاکر دیکھیں تویہی نوجوان تھے جو نہ جانے کتنی ترقیوں کاسبب بنے کتنے محاذوں پر اپنی جا ن کی بازی لگا کر اپنے مذہب و ملت اپنی قوم کےلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کےمانند دشمن کے مقابلہ میں دٹےرہے اور تاریخ کے باب میں کامیابی کی داستان رقم کرتےگئے ۔یہی نوجوان تھے جو جنگ بدر سےلےکر میدان کربلا تک اورمیدان کربلاسےلے کر آج تک اسلامی تحریک کو آگے بڑھاتے نظر آرہےہیں۔ قرآن مجید نوجوانوں کی توصیف میں قصیدہ پڑھتاہو ا ایک جگہ اصحاب کہف کو نوجوان مخاطب کرتاہےاور کچھ اس طرح داستان اصحاب کہف کو آئیڈیل بناکرپیش کرتاہے کہ ہم آپ کو ان کااصل قصہ سناتےہیں وہ چند نوجوان تھےجواپنے رب پرایمان لائے اورپھر ان کی استقامت کا کو بیان کرتےہوئے قرآن کہتاہےکہ انہوں نے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لانےاور حق پرستی کا اعلان کیا یا اگر جناب موسیٰ ؑکی داستان میں غور کیاجائےتو قرآن وہاں بھی نوجوان کو مخاطب کرتاہے اور اس طرح کہتاہے کہ قوم موسیٰ نے حضر ت موسیٰ ؑ کی تکذیب کی اس وقت چند جوان ہی تھےجنہوںنے اس کٹھن وقت میں جناب موسیٰ ؑ کا ساتھ دیا۔

لیکن آج کانوجوان کہاں جارہاہے ؟اورکس موڑ پر کھڑا ہے؟آج کاترقی یافتہ ماحول نوجوانوں کو ایسے دلدل میں ڈھکیلےجارہاہے جو مقصد حیات کو دھنسا دینےوالاہے دور حاضر میں نوجوان عصری تعلیم کے کیرئیرزم میں ایسا مشغول کردیاجارہاہے کہ اس کو دین تک پڑھنےکی فرصت نہیں مل رہی ہے اور اسلامی تعلیمات پر ایک سرسری نگاہ کئے بغیر ہی اس کے ذہن میں جواشکالات وارد کر دئےجارہےہیں وہ انہیں میں پھنس جا رہاہےیہ ایک دور جدید کی جدید سازش ہےجو نوجوانوں میں ذہن کو پراکندہ کئےہوئےہے ۔

عصر جدید میں جب نوجوانوں سےسوال کیاجاتاہے کہ آپ کی زندگی کا کیامقصد ہے ؟تو عقلی اور منطقی کی جگہ فیلمی ڈائیلوگ پر مبنی ہوتاہےاور کہتےہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میںمقصد حیات کھاؤ پیو اور عیش کروہے کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ نہیں ملنےوالی ہےاب نوجوان طبقہ نہ صرف ایسے بہیودہ شعار کو اپنی گفتار میں رکھتاہےبلکہ اس کوعملی جامہ بھی پہناتاہے ۔

عصر حاضر فتنوں کی وہ آماجگاہ ہے جہاں پر بے دینی کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیاہے ،بہیودہ نظریات جوانوں کےذہن میںابھارے جارہےہیں اوراسلام کےنا م پرنئے اسلام کی پیشکش کی جارہی ہے اور قرآن جیسی عظیم کتا ب اور اسلام جیسے مقدس اور جامع دین کوپس پشت ڈال کر سارے فیصلہ عقل ناقص اور بیہودہ نظریات کی بنیاد پر کئے جارہےہیں آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر بہت ہی ہوشیاری کےساتھ نت نئے ہتھکنڈوںکےذریعہ نوجوانوں کےاندر کفر و نفاق کے بیج بو رہاہے سوشل میڈیا کےجہاں مثبت چیزیں ہیں وہیں منفی چیزیں مثبت کےمقابلہ میں کافی زیادہ ہے اس لئےنوجوان طبقہ دور جدیدمیں جتناسوشل میڈیا سے گمراہ ہورہاہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہورہاہے ۔عجب المیہ ہےکہ ہم نے خوبصورت اسٹیٹس لگانے ہی کو اپنی کامیابی کادارو مدار سمجھ لیاہے فیس بک پوسٹ پر زیادہ سے زیادہ لائک اور کمینٹس لاکر سمجھتےہیں ہم نے بہت بڑا تیر مار لیاہے شارٹ ویڈیوز اور ریلز میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کو عبادت عظمیٰ سمجھنے لگےہیں ،دوروپیہ کےانعامی لالچ میں آکر دودو گھنٹہ گیم کھیل کر اپنےقیمتی وقت کے کھونے کااحساس تومر ہی گیاہے ۔ا لمختصر ہمارے لئےسوشل میڈیا پرشہریت حاصل کرنا پہاڑوں کر سر کرنے کےمانند ہوگیاہےیقیناً آج کے دور میں نوجوان جب ملتے ہیں تو ان کا موضوع گفتگو یا کھیل پرمبنی ہوتاہے یو فیلم کے اسرار رموز کی متلاشی کرنا ہوتا ہےباقی جو وقت بچتاہے اس میں سیاسیات پر اپنے آپ کو ایسے الجھائےہوتےہیں گویا ’’سارےجہان کا درد ہمارے دلوں میں ہے‘‘۔عقلی اورعلمی ابحاث نوجوانوںسے بالکل اس طرح مفقودہو گئی ہے جیسے’ گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہو‘۔

سوشل میڈیا کے مسائل خود ایک وسیع موضوع گفتگو ہے اگر دیکھا جائےتو دور حاضر میں فحاشیت اورعریانیت نےہر خاندان کواپنی لپیٹ میں لےلیاہے بے شمار رسائل و اخبارات بے حیائی اور فحش کوفروغ دے رہی ہیں انٹرنیٹ پر نوجوانوں کےایمان خراب کرنےکےلئے نہ جانے کتنی ویب سایٹز موجود ہیں جن تک رسائی جوانوں کی آسانی سے ہوجاتی ہے گھر سے لےکر کالج تک کالج سے لر کر بازار تک بے حیائی کاماحول بناہواہے جس کی بدولت نوجوان کےاندر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ بہت زیادہ پیداہوگیاہےاور فحاشی اور اور بے حیائی جیسی رذائل اخلاقی نوجوانوں کی زندگی کےپیش قیمتی زندگی کوبرباد کر رہی ہے ساتھ ہی ساتھ جودوسرےمسائل نوجوانوں کو اپنی زد میں لئےہوئےہیں وہ تعلیمی مسائل ہیں نظام تعلیم جو ہمارےیہاں بنایا ہواہے وہ برطانوی نظریات پر ہےکہ کیوںکہ یہ نظام برطانوی مفکر لارڈ میکاوے کے نظریات پر مشتمل ہےعصر جدید میں وسعت نظری ختم ہوچکی ہے ۔رذائل اخلاقی بام عروج پر آچکی ہے جیساکہ ہم نے اوپر اشار ہ کیاہے یہ نوجوانوں کےلئے خود ہی بہت بڑے مسائل ہیں اوراسی طریقہ سےخودکشی کے جرائم کا بہت تیزی سےنوجوانوں کے اندر یہ نظام تعلیم کے ناقص ہونے کی نشاندہی کرتاہے لہٰذا نظام تعلیم کودرست کرنےکی اشد ضرورت ہے ایک مشہور مفکرنے بڑے اچھے اندازمیں یہ بات کہی ہےکہ ہرقوم کی ترقی کاانحصار نظام تعلیم پر مبنی ہے یعنی بہ الفاظ دیگرے یہ کہاجائے کہ قوم کا مستقبل نظام تعلیم پر موقوف ہے۔ اس سے ہٹ کربھی ایک مسئلہ گلوبوزیشن کا ہے جس کو مغرب نے بہت زیادہ وسعت دے رکھی ہے گلوبوزیشن میں چارایسی چیزیں ہیں جن کووسیع پیمانے پر پھیلانےکی وکوشش کی جارہی ہے ۱۔تہذیب ۲۔۔ٹیکنالوجی ۔۳۔ معیشت۴۔جمہوریت اور او ر ان تمام چیزو ں نے جس کو سب سے زیادہ اپنی گرفت میں لیا ہے وہ ہےنوجوان طبقہ یہ وہ تہذیب ہے جس کی علامہ اقبال نے اس طرح عکاسی کی ہے ۔

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے نامید

ضمیر پا ک و خیال بلند ذوق لطیف

ان تمام چیزوں کا سرچشمہ تعلیم ہے اور ان کی بنیاد ی وجہ دینی تعلیمات سےدوری ہے ہم نے صرف یہ سمجھ رکھاہے کہ دین سیکھنا ملا اور مولویوں کا کام ہے ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔مگر اس کے باوجود احکام اسلامی پر اعتراض کرنا خاندانی حق سمجھاجارہاہے ۔جوانوں کا اسلامی مسائل کا ناآشنا ہونےمیں والدین بھی ایک حدتک شریک ہیں کیوں کہ عصری تعلیم سکھانے میں والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مسلمان گھرانے کاہے۔آیا کوئی ڈاکٹر بن کے پیدا ہوتاہےکوئی وکیل بن کے پیدا ہوتاہے نہیں ہوتاہے بلکہ اس کو ڈاکٹر اوروکیل بننے کےلئےتعلیم کی ضرورت ہوتی ہے ویسیے ہی صرف مسلمان کے گھر میں پیداہوجانا ہی کافی نہیںہے بلکہ دین فہمی اورشریعت اسلامی کو جاننا ضروری ہے لیکن مقام افسوس تو یہی ہے کہ اس بات کی طرف عالم اسلام متوجہ نہیںہےتاریخ اسلام پر کبھی نگاہ ہی نہیں رہتی ورنہ اسلام میں صرف نماز روزہ نہیں ہے بلکہ دنیا کےسارے علوم اسلام کے ذریعہ ہی وجود میں آئےہیں آج کانوجوان طبقہ یہ کہتاہے کہ مغرب نے بڑی ترقی ہے سائنس کی دنیامیں بہت آگے ہیں ہمارے پاس کیاہے یہ سوال صرف اس لئے ہوتاہےکہ انہوںنے تاریخ کا مطالعہ کیا ہی نہیں قرآنی آیات کو سمجھا ہیںنہیں لہذٰا ترقی کی دوڑ میں مغرب کواپنا آئیڈیل بناکر اس طریقہ سےان کے گرویدہ ہوجاتےہیں اور ان کی تہذیب کو بھی اپنی زندگی کا جز لاینفک بنادیتےہیں ۔یہ ساری پریشانیاں بچوں کواسلام نہ سکھانے کی وجہ سے ہے اور اگر اسلام پہ کوئی احسان کرتابھی ہے تو ہزار پانچ سو میں کسی مولوی کوگھر پہ بلا کر قرآن پڑھانا سکھا کر اور دو تین دین کی باتیں سکھا کر سمجھتےہیں پورااسلام سمجھ میں آگیاہے جب ایسے ماحول میں ایک بچہ نوجوانی کی منزل پر قدم رکھے گا جس کی دن بھر کی تعلیم مغربی ثقافت پہ ہو اور اسلامی تعلیمات کے لئے بس ایک گھنٹہ ہی مل رہاہو تو عالم نوجوانی میں وہ اپنے دین پر کہاں رہےگا ۔نوجوان کو سمجھنا چاہئے کہ نوجوانی بیہودہ کاموں میں صرف کرنے کانام نہیںہے بلکہ نوجوانی ایک ایسی فکر کانام ہے جوانقلاب میں ڈھل کر سماج اور معاشرے کو بدل سکتی ہے علامہ اقبال بھی نوجوانوں کو انقلابی پیغام دیتےہوئے فرماتےہیں ۔

عقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کواپنی منزل آسمانوں

نہیں تیرا نشمین قصر سلطانی کےگنبد پر

توشاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

نوجوانی منزل معراج طے کرنے کانام ہے نوجوانی قوم کو بیدارکرنےکا نام ہے ۔خداوند عالم کی بارگاہ میںدعاہےبحق محمد وآل محمدؐ ہمیںاور ہمارے قوم کے نوجوانوں کو ہدایت کانور عطافرما ۔آمین۔

والسلام علیٰ من اتبعٰ الھدیٰ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .