حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں جاری خوفناک قحط نے انسانی المیے کی بدترین مثال قائم کر دی ہے، جہاں لاکھوں مرد، خواتین اور بچے بھوک، پیاس اور شدید گرمی میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ الجزیرہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت غزہ میں صرف دو چیزیں عام ہیں: بھوک اور جان لیوا گرمی۔ بین الاقوامی اداروں خصوصاً یونیسیف کی بار بار تنبیہات کے باوجود صورت حال دن بہ دن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
900 سے زائد افراد بھوک سے جاں بحق
رپورٹ کے مطابق اب تک بھوک کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ہزاروں افراد خوراک کی تلاش میں صہیونی حملوں کا نشانہ بن کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس وقت 71 ہزار سے زائد افراد موت کے دہانے پر ہیں اور انہیں فوری طور پر خوراک اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
خوراک کے مراکز بھی موت کے اڈے بن گئے
صہیونی حملے نہ صرف رہائشی علاقوں پر جاری ہیں بلکہ امدادی مراکز پر بھی براہ راست حملے کیے جا رہے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج ان مراکز کو نشانہ بناتی ہے جہاں لوگ خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ بعض افراد گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو جاتے ہیں، کچھ میزائل حملوں میں مارے جاتے ہیں، اور بعض بھاگتے ہجوم میں کچلے جاتے ہیں۔
یونیسیف: لاکھوں افراد بھوک کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں
یونیسیف کے مطابق 4 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد شدید قحط کا شکار ہیں اور خوراک کی پانچوں خطرناک مراحل میں سب سے آخری درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ 71 بچے فوری طور پر شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 17 ہزار خواتین بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق، موجودہ صورت حال گزشتہ کئی عشروں کی بدترین انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ طبی امداد کی شدید قلت کے باعث غزہ کے اسپتال شدید دباؤ کا شکار ہیں اور متاثرہ مریضوں، زخمیوں اور ضعیف افراد کو سنبھالنے کے قابل نہیں رہے۔
کفن اور تدفین کا بحران
الجزیرہ نے ایک اور رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں کفن، بیگز اور سردخانوں کی قلت نے نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔ اگر پانچ دن کے اندر ضروری سامان نہ پہنچا تو مردہ خانوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہو جائیں گی۔ ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ایک کارکن کے مطابق، وہ روزانہ 35 سے 100 شہداء کی لاشیں وصول کر رہے ہیں اور کفن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پرانے کپڑوں سے لاشوں کو لپیٹنے پر مجبور ہیں۔
خوراک کی قیمتیں آسمان پر
العربی الجدید نے لکھا ہے کہ خوراک کی قلت اور محاصرے نے غزہ کے باسیوں کو مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد سے آٹے کی قیمت 3,000 گنا بڑھ چکی ہے۔
پشتِ دیوار امداد، مگر غزہ بھوکا
کارل اسکاو، عالمی ادارہ خوراک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں اس قدر خوفناک انسانی بحران پہلے کبھی نہیں دیکھ چکے۔ ان کے مطابق امدادی سامان سرحدوں کے قریب موجود ہے، مگر اسرائیل 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کیے ہوئے ہے اور کسی قسم کی خوراک اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا۔
دنیا بھر میں بے مثال غذائی بحران
تنظیم "پزشکان بدون مرز" (Doctors Without Borders) کا کہنا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کی سطح پوری دنیا میں بے مثال ہے۔ حاملہ خواتین کی غذائی قلت کے سبب قبل از وقت پیدائشوں میں اضافہ ہوا ہے، اور بچوں کے لیے مخصوص یونٹس اس حد تک بھر چکے ہیں کہ ایک ہی بستر پر چار پانچ بچے رکھے جا رہے ہیں۔
یہ انسانیت سوز صورت حال بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے، لیکن عالمی برادری کی خاموشی اس المناک منظرنامے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔









آپ کا تبصرہ