حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ۷۲ روز کے مکمل محاصرے کے بعد بالآخر ۱۲ مئی ۲۰۲۵ بروز پیر، ۳۵ امدادی ٹرک غذائی اور طبی سامان لے کر غزہ شہر میں داخل ہو گئے، جس سے اسرائیلی پابندیوں کے باعث جاری انسانی بحران میں معمولی سی سہولت پیدا ہوئی ہے۔
یہ ٹرک ایسے وقت میں غزہ پہنچے جب ایک امریکی-اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے عارضی جنگ بندی متوقع ہے۔ یہ انسانی امداد کی پہلی باقاعدہ ترسیل ہے جو ۲ مارچ کو اسرائیل کی جانب سے تمام سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے بعد ممکن ہو سکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اس دوران غزہ میں انسانی صورت حال انتہائی ابتر ہو چکی تھی۔ ۸ لاکھ ۷۶ ہزار سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار تھے، جب کہ ۳ لاکھ ۴۵ ہزار کے قریب افراد قحط کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ ہزاروں بچے اور تقریباً ۱۶ ہزار حاملہ یا نئی ماؤں کو شدید غذائی قلت کا سامنا تھا۔ اکثر اسپتال مریضوں کے لیے خوراک کی فراہمی سے قاصر ہو چکے تھے اور عام شہری دن میں بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر کر پاتے تھے۔
اگرچہ اب امدادی سامان کی جزوی ترسیل شروع ہوئی ہے، مگر رفح اور کرم ابو سالم سمیت مختلف سرحدی گزرگاہوں پر سینکڑوں ٹرک تاحال اجازتِ داخلہ کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف مصر کی سرحد پر ۳۰۰ سے زائد امدادی ٹرک منتظر ہیں۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ہیومن رائٹس واچ، نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھکمری کو ایک "جنگی ہتھیار" کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ ۳۵ ٹرکوں کی آمد ایک مثبت قدم ہے، لیکن ۲۳ لاکھ کی آبادی والے محصور غزہ کے لیے یہ حجم انتہائی ناکافی ہے۔ جنگ سے قبل روزانہ تقریباً ۶۰۰ ٹرک غزہ میں داخل ہوتے تھے۔ امدادی تنظیموں نے فوری طور پر تمام گزرگاہوں کے مکمل اور مستقل کھولے جانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ممکنہ قحط کو روکا جا سکے۔









آپ کا تبصرہ