حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نوارِ غزہ میں سخت اسرائیلی محاصرے، مسلسل بمباری اور امدادی سامان کی قلت نے انسانی بحران کو سنگین بنا دیا ہے۔ بھوک اور قحط کا سامنا کرنے والے 24 لاکھ فلسطینیوں کے لیے اب صرف چار روٹی کی دکانیں کام کر رہی ہیں۔
غزہ میں روٹی فروشوں کی یونین کے سربراہ عبدالناصر عجرمی نے ہفتے کو بتایا کہ عالمی ادارۂ خوراک (WFP) سے معاہدہ رکھنے والی 25 میں سے صرف 4 دکانیں فعال ہیں، جو دیر البلح کے علاقے میں واقع ہیں۔ دیگر دکانوں کو اسرائیلی بمباری اور فوجی محاصرے کے باعث بند ہونا پڑا ہے۔
عجرمی کے مطابق، خان یونس میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال، مسلسل حملوں اور آبادی کی بے دخلی کے سبب کوئی روٹی کی دکان کام نہیں کر رہی۔
انہوں نے بتایا کہ نصیرات کیمپ میں ایک روٹی کی دکان صرف ایک دن کھلی، مگر شدید بدنظمی اور بھوکے عوام کے ہجوم کے باعث بند کرنی پڑی۔ دکان مالکان نے دستیاب آٹا اور دیگر سامان عالمی ادارۂ خوراک کو واپس کر دیا۔
شمالی غزہ کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے، جہاں زیادہ تر روٹی کی دکانیں بمباری کا نشانہ بن چکی ہیں، اور باقی ماندہ دکانیں شدید جنگی حالات کے باعث بند ہیں۔
عجرمی نے واضح کیا کہ پورے غزہ میں موجود 140 روٹی کی دکانوں میں سے صرف 50 ایسی ہیں جو اب تک تباہ نہیں ہوئیں۔ ان میں سے 25 کا عالمی ادارہ خوراک سے تعلق تھا جن کی موجودہ صورتِ حال معلوم ہے، مگر دیگر 25 دکانوں کے بارے میں مارچ سے کوئی معلومات نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ منگل اسرائیلی حکام نے کچھ آٹے سے بھرے ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیے، مگر یہ مقدار یومیہ ضروریات کے لیے نہایت ناکافی ہے۔
بدھ کے روز، اسرائیل نے 81 روز بعد 87 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیے، جب کہ روزانہ کم از کم 500 ٹرک درکار ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے اونروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کو ملنے والی امداد "بھوسے کے ڈھیر میں سوئی" کے برابر ہے۔ ان کے مطابق، فلسطینیوں کو روزانہ 500 تا 600 ٹرک امداد کی ضرورت ہے، جسے اقوام متحدہ کے ادارے مہیا کریں۔
اسرائیل کی جانب سے 2 مارچ سے امدادی سامان کی بندش نے صورتحال کو قحط کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں خوراک کی قلت کے باعث اموات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔









آپ کا تبصرہ