جمعرات 15 مئی 2025 - 17:18
غزہ میں انسانیت سوز قحط؛ ہزاروں بچے بھوک سے موت کے دہانے پر، عالمی برادری خاموش

حوزہ/ غزہ کا بحران ایک انسانیت سوز فاجعہ ہے جس کے منفی اثرات تمام طبقات پر مرتب ہو رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ متاثر بچے ہو رہے ہیں۔ ان پر پڑنے والا دباؤ ان کی ہڈیاں توڑنے کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 60,000 سے زیادہ بچے شدید نوعیت کی غذائی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے ہزاروں بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کا بحران ایک انسانیت سوز فاجعہ ہے جس کے منفی اثرات تمام طبقات پر مرتب ہو رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ متاثر بچے ہو رہے ہیں۔ ان پر پڑنے والا دباؤ ان کی ہڈیاں توڑنے کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 60,000 سے زیادہ بچے شدید نوعیت کی غذائی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے ہزاروں بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، تقریباً دو ماہ قبل صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد، اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ شروع کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تمام سرحدی راستوں کو انسانی امداد بشمول پانی، کھانا، ایندھن اور ادویات کی ترسیل کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ عالمی غذائی پروگرام (WFP) کے مطابق، اپریل 2024 تک غزہ کے تمام غذائی ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور مارچ سے ہی حالات بحرانی بن چکے ہیں۔ خیرات کے کھانے پکانے والے ادارے جو روزانہ ایک ملین سے زیادہ کھانے کے پیکٹ تیار کرتے تھے، اب کھانا فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ باقی ماندہ اجناس کی قیمت میں 1400 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کا خریدنا ناممکن ہو چکا ہے۔

یہ بحران ایک انسانیت سوز مسئلہ ہے جس کے تباہ کن اثرات نے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ بوجھ بچوں پر آ رہا ہے۔ غذائی اجزاء کی کمی ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو تباہ کر رہی ہے۔ ان بچوں میں سے بیشتر ایک انتہائی معمولی خوراک کے ساتھ زندہ ہیں۔ بہت سے بچے اپنے جسمانی اسکلیٹن کے لحاظ سے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ سیدھا کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ ویڈیوز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیرخوار بچے دودھ کے بجائے صرف پانی پی رہے ہیں، جو ایک انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ قحط انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے، ایک جنگ اور تدریجی نسل کشی ہے جو انسانیت کو شرمسار کر رہی ہے۔ 21 نومبر 2024 کو عالمی عدالت نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع سابق یوو گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ اس کے علاوہ 28 مارچ 2024 کو جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے کیس میں عدالت نے نیتن یاہو کے خلاف احکام جاری کیے اور اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کرے تاکہ غزہ کے فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔

لیکن اسرائیل عالمی قانون اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی باتوں کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔ آج، غزہ کا غذائی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ روٹی کی دکانوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کھیتوں کو بمباری کر کے جلایا جا رہا ہے، مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مویشیوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور گوداموں کو تباہ کر دیا جا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے اور خون کی ندیاں بہ رہی ہیں۔

دنیا کے رہنما، یورپ، اقوام متحدہ، عرب ممالک اور ان کے حکمران، سب اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ یہ ناقابل تصور ہے کہ 21ویں صدی میں، جہاں ٹیکنالوجی، جدیدیت اور انصاف کا دور ہے، ایک قحط اور نسل کشی کی لائیو نشریات کی جا رہی ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ آخر ہمیں اس اخلاقی اور قانونی خلا تک کیسے پہنچایا گیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی اقدار جو ہم صدیوں سے ان کی حفاظت کے لیے جنگ کر رہے تھے، اب مٹ چکی ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha