حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں پانی کی شدید قلت کے دوران اسرائیلی فوج نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک منظم پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ دفترِ اطلاعاتی حکومتِ غزہ نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ صہیونی افواج نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ سے اب تک کم از کم ۱۱۲ مرتبہ پانی لینے کے لیے لگی قطاروں کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے، تاکہ اہلِ غزہ کو پانی سے محروم کر کے ان پر "پیاس" کی جنگ مسلط کی جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے: "یہ ایک منظم اور باضابطہ منصوبہ ہے جس کے تحت قابض صہیونی حکومت نے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی کو قتلِ عام کا ہتھیار بنا دیا ہے، اور اہلِ غزہ کو ان کے ابتدائی ترین انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔"
رپورٹ کے مطابق، تازہ ترین حملہ اتوار کے روز النصیرات کیمپ (مرکزی غزہ) میں پیش آیا، جہاں ۱۲ فلسطینی شہری، جن میں ۸ بچے شامل تھے، پانی بھرنے کے انتظار میں شہید ہو گئے۔
دفتر اطلاعات نے مزید انکشاف کیا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک:
۱۱۲ میٹھے پانی کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا،
۷۲۰ پانی کے کنویں تباہ کیے جا چکے ہیں،
جس کے نتیجے میں ۱۲ لاکھ سے زائد افراد صاف اور محفوظ پانی سے محروم ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ، اسرائیل نے ہر ماہ غزہ میں ۱۲ ملین لیٹر ایندھن کی ترسیل بھی روک رکھی ہے، جو کہ کنووں، نکاسیِ آب، کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے نظام اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کو چلانے کے لیے ضروری ہے۔ اس اقدام سے آبی و ماحولیاتی نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے، اور بچوں میں بیماریوں اور مہلک وباؤں کے پھیلاؤ کا خطرناک سلسلہ جاری ہے۔
دفتر نے مزید وضاحت کی کہ ۲۳ جنوری ۲۰۲۵ سے اسرائیلی کمپنی "مکوروت" نے غزہ کے لیے پانی کی ترسیل مکمل طور پر بند کر دی، جو اس خطے کے لیے آخری باقاعدہ ذریعۂ آب تھا۔
اسی طرح، ۹ مارچ ۲۰۲۵ کو دیر البلح میں واقع مرکزی واٹر پیوریفکیشن اسٹیشن کی بجلی منقطع کر دی گئی، جس کے بعد وہاں سے پانی کی پیداوار مکمل طور پر رک گئی اور بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔
بیان کے آخر میں اس غیر انسانی اقدام کو بین الاقوامی قوانین، بالخصوص کنونشنِ جنیوا کے تحت ایک مکمل جنگی جرم قرار دیتے ہوئے، عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی گئی ہے تاکہ غزہ میں ایندھن، پانی اور ضروری آلات کی ترسیل بحال کی جا سکے۔
واضح رہے کہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ سے جاری اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ ۹۶ ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں، جب کہ ۱۰ ہزار سے زائد افراد لاپتا اور لاکھوں افراد قحط، بیماری اور جبری نقل مکانی کا شکار ہو چکے ہیں۔









آپ کا تبصرہ