حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں صہیونی محاصرے کے باعث انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں 23 لاکھ فلسطینی خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، صہیونی حکومت نے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو روک دیا ہے، جس کی وجہ سے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق، غزہ میں بسنے والے 20 لاکھ سے زائد فلسطینی فوری طور پر خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کے محتاج ہیں، جبکہ ایک ہفتے سے ایندھن کی فراہمی بھی مکمل طور پر بند ہے، جس کے نتیجے میں گھروں کو گرم رکھنے اور بجلی کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والے جنریٹرز بھی بند ہو گئے ہیں۔
یہ بحران ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہا ہے جب غزہ میں ایک سالہ صہیونی جارحیت کے بعد ایک عارضی جنگ بندی نافذ کی گئی تھی۔ تاہم، صیہونی حکومت نے جنگ بندی کو مستقل بنانے کے بجائے اس کی شرائط سے انحراف کیا اور غزہ کے داخلی راستوں کو بند کر دیا، جس کی وجہ سے غذائی اجناس، طبی سامان اور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل رک گئی ہے۔
واضح رہے کہ حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ 30 جنوری سے شروع ہوا تھا، جس کی پہلی 42 روزہ مدت مکمل ہو چکی ہے۔ مذاکرات کے دوسرے مرحلے پر گفتگو شروع ہونا تھی، لیکن صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے نہ صرف اس عمل کو روک دیا بلکہ امریکہ کے دورے کے بعد باضابطہ طور پر مذاکرات ختم کر دیے اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔
عالمی برادری کی جانب سے صہیونی مظالم اور غزہ میں بڑھتے ہوئے قحط پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، مگر تاحال انسانی بحران کے خاتمے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
آپ کا تبصرہ