۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
فلسطین

حوزہ/ مسلمانوں کو اسرائیل اور امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حماس اور ایران کی طرح ان کےخلاف مزاحمتی بلاک تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔حماس نے گیارہ روزہ جنگ میں اور ایران نےمشرق وسطیٰ میں امریکی چودھراہٹ پر وار کرکے اس تصور کو باطل ثابت کردیاہے کہ یہ طاقتیں ناقابل تسخیر ہیں ۔اگر اللہ پر یقینِ کامل ہو تو کسی بھی بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دی جاسکتی ہے ۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسییوں تو مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی جارحیت عام بات ہے مگر ماہ رمضان المبارک میں اس تشدد میں مزید اضافہ ہوجاتاہے ۔گذشتہ کئی سالوں کے واقعات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی فوج فلسطینی عوام پر شدت کے ساتھ حملہ ور ہوجاتی ہے ۔جبکہ فلسطینی مسلمان فقط مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں ،اس کے باوجود ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں ۔انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں مرنے کے لیے بھیج دیاجاتاہے ۔ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے ۔نماز کے دوران زہریلی گیس کے گولے داغے جاتے ہیں تاکہ کسی طرح فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ سے دست بردارہوجائیں ۔سال گذشتہ ماہ رمضان المبارک میں اسرائیلی فوجوں نے مسجداقصیٰ میں روزہ داروں کے خون سے ہولی کھیلی اور ان پر تشدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مسجد اقصیٰ میں موجود نمازیوں کا قتل عام کیا گیا اور فضائی بمباری میں مظلوموں کے گھر مسمار کردیے گئے ۔حماس کے ساتھ گیارہ روز تک پنجہ آزمائی ہوتی رہی ،مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔بالآخر تنگ آکر اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا،کیونکہ حماس کے متواتر حملوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم ‘ کو تہس نہس کردیا تھا ۔جنگ بندی پر باہمی اتفاق رائے کے بعد غزہ میں دھوم دھام سے جشن منایا گیا۔اس کے برخلاف اسرائیل میں ماتم چھایا رہا، جبکہ اسرائیل نے اس جنگ میں اپنی ناکامی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔اس ایک سال کے دوران اسرائیل کی طرف سے مسلسل ’جنگ بندی معاہدہ‘کی خلاف ورزی کی خبریں آتی رہیں ۔اسرائیل چاہتاہے کہ مسجد اقصیٰ کے آس پاس موجود قدیم محلوں میں باہر سے لائے گئے یہودیوں کو بسایا جائے۔کئ بستی بسائی بھی گئی ہیں لیکن فلسطینی عوام کی طرف سے اس منصوبہ کی شدت کے ساتھ مخالفت ہوتی رہی ہے ۔ظاہر ہے نہتے عوام اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ،اس لیے تیزی کے ساتھ یہودیوں کی بازآبادکاری کی مہم چلائی جارہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ایک بار پھر ماہ رمضان المبارک میں اسرائیلی فوجوں کی طرف سے اس قدر فوجی جارحیت کا مظاہرہ کیوں کیا جارہاہے؟ آیا اسرائیل ایک بار پھر حماس کے ساتھ پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہے ؟ اس پنجہ آزمائی کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑے گا؟ حماس کو یا پھر اسرائیل کو؟ان سوالوں کے جوابات بہت مشکل نہیں ہیں ۔موجودہ صورتحال ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے کافی ہے ۔پہلا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ پر تسلط چاہتاہے ۔اس کے لیے وہ مسلسل مسجد اقصیٰ کا رخ کرنے والے مسلمانوں پر تشدد کرتا رہتاہے تاکہ مسلمانوں کو خائف کرکے مسجد اقصیٰ سے دور کردیا جائے ۔مدت دراز سے اس کی یہ کوشش جاری ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔فلسطینی عوام بھی بخوبی جانتی ہے کہ ان کی استقامت کا اصل راز مسجد اقصیٰ سے وابستگی ہے ۔جبکہ اسرائیلی تشدد کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں، مگر قدیم محلوں میں ابھی تک مسلمان آباد ہیں ۔انہیں نکالنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں تاکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا پایۂ تخت بنایاجاسکے ۔اس خوا ب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اسے امریکی سرپرستی حاصل ہے ۔اسرائیل اور امریکہ کے اس اتحاد کے خلاف نہ صرف غزہ کے مسلمان متحد ہیں بلکہ مغربی کنارے پر آباد فلسطینی بھی ان کے خلاف میدان عمل میں ہیں ۔ان کی طرف سے مسلسل مزاحمت کا عمل جاری ہے جس نے اسرائیلی منصوبوں کو خاک میں ملادیاہے ۔محمود عباس کی دُہری سیاست سے مغربی کنارے کے لوگ تنگ آچکے ہیں اس لیے انہوں نے بھی غزہ کے عوام کی طرح مزاحمت کی راہ اختیار کرلی ہے ،جو اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل حماس کو اکسا نا چاہتاہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گیارہ روزہ جنگ میں حماس سے منہ کی کھانے کے بعد وہ حماس کو سبق سکھانے کی فکر میں ہے ۔ممکن ہے ’آئرن ڈوم‘ کو مزید جانچا پرکھا گیا ہو ۔نئی دفاعی تکنیک کو حاصل کیا گیا ہو ۔لیکن آیا اسرائیل کا دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ سو فیصد محفوظ ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو گیارہ روزہ جنگ میں ’آئرن ڈوم ‘ پوری طرح ناکام کیسے ہوگیا؟۔حماس نے اسرائیل پر پے درپے حملے کئے جنہیں روکنے میں ’آئرون ڈوم ‘ ناکام رہا تھا ۔اسرائیل میں ہر وقت جنگی سائرن بجتے رہے ۔اسرائیلی عوام زیر زمین بنکروں میں چھپتی پھر رہی تھی ۔اس جنگ کا ایک مقصد نتن یاہو کو دوبارہ اقتدار پر مسلط کرنا تھا ،مگر جنگ کے کچھ ہی مہینوں کے بعد اسرائیلی عوام نے نتن یاہو کی قیادت کو مسترد کردیا ۔ان کی جگہ نفتالی بیننٹ وزیر اعظم منتخب کرلیے گئے ۔لیکن ابھی تک اسرائیل کا سیاسی بحران ختم نہیں ہوا ۔نفتالی بیننٹ کی کرسی کبھی بھی ان کے نیچے سے کھسک سکتی ہے ۔اس سیاسی بحران کی ایک وجہ اسرائیل کی جنگی پالیسی بھی ہے ۔وہ پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہاہے جب کہ پوری دنیا پر حکمرانی کا دعویدار آج تک فلسطین پر قبضے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکا ۔اس کی توسیع پسندانہ پالیسی نے اسرائیل میں سیاسی بحران کو جنم دیاہے کیونکہ اسرائیل کے بجٹ کا بڑا حملہ جنگوں اور دنیا پر حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے کے منصوبہ پر خرچ ہورہاہے ۔
اس وقت غزہ اور مغربی کنارے کے مسلمان مزاحمتی تحریکات میں متحد ہیں ۔گذشتہ برس کی جنگ کے بعد مغربی کنارے میں زیادہ بیداری محسوس کی گئی ۔اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں تاکہ مزاحمت کو ایک جگہ محدود نہ رکھاجائے ۔حالیہ کچھ دنوں میں جنوب اور شمال میں چار مزاحمتی کاروائیوں میں 14 صہیونی ہلاک ہوئے ،جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ حماس کے بال و پر بڑھتے جارہے ہیں ۔ان مزاحمتی کاروائیوں سے اسرائیلی عوام میں خوف کا ماحول ہے ۔قابل غور امر یہ ہے کہ پہلی بار مزاحمتی کاروائیوں میں مغربی کنارے کے افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور غزہ کے عوام کی طرح اسرائیلی جارحیت کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کیاہے ۔اسرائیل انہی مزاحمتی کاروائیوں کا بدلہ لینے کے لیے مسجد اقصیٰ میں نہتے روزہ داروں پر حملے کررہاہے ۔وہ چاہتاہے کہ کسی طرح فلسطینی عوام کو ہراساں کرکے مسجد اقصیٰ پر تسلط جماسکے ،جو فی الوقت ممکن نظر نہیں آرہاہے ۔مسجد اقصیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ کاروائی پر قدغن لگ سکتاہے لیکن عرب ممالک کے نفاق آمیز رویے نے انتفاضۂ القدس کو بہت نقصان پہونچایاہے ۔اکثر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ متحد ہیں ۔خاص طورپر ترکی،مصر اور سعودی عرب اس کے حلیف ملک ہیں ۔طیب رجب اردوگان خلافت عثمانیہ کے نظام کی بازیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں مگراسرائیل کے ساتھ ان کی دوستی کے چلتے ہوئے یہ ناممکن ہے ۔اردوگان کا ظاہر کچھ ، باطن کچھ اور ہے ۔انہیں چاہیے کہ پہلے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر لے کر آئیں تاکہ خلافت عثمانیہ کے نظام کی راہیں استوار ہوسکیں ۔یاد رہےعالم اسلام کے ساتھ نفاق آمیز سیاست ترکی کے مستقبل کو اندھیرے میں دھکیل دے گی ۔
بہرحال!آج مسجد اقصیٰ میں جوکچھ ہورہاہے وہ مسلمان ممالک کی بے حسی اور مسلمانوں کی استعمار دوستی کا نتیجہ ہے ۔فلسطین کے لیے عالم اسلام متحد نہیں ہے ۔ہر ملک اپنے مفادات کے پیش نظر اسرائیل اور امریکہ کی گود میں بیٹھا ہواہے ۔متعدد مسلمان ممالک ’صدی ڈیل ‘ کے نفاذ میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں ۔مصر جیسے ملک اسرائیل کی کٹھ پتلی ہیں جہاں بظاہر مسلمان اقتدار میں ہیں لیکن اس کی ڈور اسرائیل کےہاتھوں میں ہے ۔قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کے استقلال کے لیے عالم اسلام کا اتحاد نہایت ضروری ہے ۔جس طرح ایران فلسطینی مظلوموں کی حمایت میں سینہ سپر ہے اگر تمام اسلامی ممالک اسی طرح اتحاد کا اظہار کریں ،تو قبلۂ اول میں مسلمانوں کو نماز اداکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔فلسطینی مستضعفین آزاد اور خوشگوار فضا میں سانس لے سکیں گے ۔دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی ہوگی اور جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں ،ان کو تقویت حاصل ہوگی ۔مسلمانوں کو اسرائیل اور امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حماس اور ایران کی طرح ان کےخلاف مزاحمتی بلاک تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔حماس نے گیارہ روزہ جنگ میں اور ایران نےمشرق وسطیٰ میں امریکی چودھراہٹ پر وار کرکے اس تصور کو باطل ثابت کردیاہے کہ یہ طاقتیں ناقابل تسخیر ہیں ۔اگر اللہ پر یقینِ کامل ہو تو کسی بھی بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دی جاسکتی ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .